نکہت زرین: جس لڑکی کے لباس پر لوگوں کے تحفظات تھے، وہ مسلم لڑکیوں کے لئے تحریک بنے گی، والد جمیل احمد کا بیان

نئی عالمی چیمپئن باکسر نکہت زرین نے سماجی تعصب اور کاندھے کی چوٹ کو اپنے خواب کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیا

نکہت زرین / ٹوئٹر
نکہت زرین / ٹوئٹر
user

قومی آوازبیورو

حیدرآباد: سابق فٹبالر اور کرکٹر محمد جمیل چاہتے تھے کہ ان کی چار بیٹیوں میں سے ایک کھیل کے میدان میں اپنے جوہر دکھائے۔ نظام آباد کے رہنے والے جمیل نے اپنی تیسری بیٹی نکہت زرین کے لیے ایتھلیٹکس کا انتخاب کیا۔ جواں سال نکہت دو اسپرنٹ مقابلوں میں چیمپئن رہ چکی ہیں لیکن ایک چچا کے مشورے پر باکسنگ رنگ کو اپنا مستقبل بنایا۔ 14 سال کی عمر میں زرین نے عالمی یوتھ باکسنگ چیمپیئن کا تاج پہنا۔

کندھے کی چوٹ کی وجہ سے نکہت کا 2017 کا پورا سال خراب ہو گیا تھا لیکن پانچ سال بعد انہوں نے تھائی لینڈ کی جیتپونگ جوٹاماس کو فلائی ویٹ (52 کلوگرام) زمرے میں شکست دی اور عالمی چیمپئن بن گئیں۔ نکہت زرین کے والد جمیل احمد نے انگریزی روزنامہ کو بتایا کہ "عالمی چیمپئن شپ میں طلائی تمغہ جیتنا ایک ایسی چیز ہے جو مسلمان لڑکیوں کے ساتھ ساتھ ملک کی ہر لڑکی کے لیے زندگی میں خوابوں کو شرمندہ تعبیر بنانے کے لیے ایک تحریک کا کام کرے گی۔ ایک بچہ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی، اسے اپنا راستہ خود بنانا ہوتا ہے اور نکہت نے اپنا راستہ خود بنایا ہے۔‘‘


باکسنگ کے کھیل میں لڑکیوں کو شارٹس یعنی نیکر پہننے کی ضرورت ہوتی ہے اور جس ماحول میں جمیل رہتے تھے ان کے لئے آسان نہیں تھا کہ بیٹی کو شارٹس پہن کر کھیلنے کی اجازت دیں لیکن جمیل احمد اور ان کی اہلیہ پروین سلطانہ نے بیٹی کی حمایت کی اور اس کے خواب کو پورا کرنے میں پیش پیش رہے۔ نکہت نے ترکی میں ترکی کی ہی مکہ باز الکو دیمیر کو شکست دے کر 2011 کا عالمی یوتھ چیمپین شپ کا خطاب جیتا تھا۔ جمیل احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی تعلیم اور کھیل کو سپورٹ کرنے کے لیے 15 سال قبل سعودی عرب میں اپنی نوکری چھوڑ کر نظام آباد منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔

نکہت کی دو بڑی بہنیں ڈاکٹر ہیں اور چھوٹی بہن بیڈمنٹن کھیلتی ہے۔ جمیل احمد نے بتایا کہ جب نکہت نے باکسر بننے کی اپنی خواہش کے بارے میں بتایا تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن بعض اوقات رشتہ دار یا دوست ضرور کہتے تھے کہ لڑکی کو ایسا کوئی کھیل نہیں کھیلنا چاہیے جس میں اسے شارٹس پہننا پڑے۔ جمیل احمد نے مزید کہا کہ ہم صرف نکہت کے خواب کے ساتھ تھے۔


اب جمیل احمد کے گھر والے نکہت کی واپسی اور اس کے استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جمیل احمد نے بتایا کی گزشتہ دو سے تین سال سے وہ اپنی پسندیدہ بریانی اور نہاری سے محروم ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایک بار جب وہ کیمپ سے فارغ ہو جاتی ہے، تو وہ دوبارہ مصروف ہونے سے پہلے صرف ایک دو دن کے لیے اپنی مرضی کا کھانا کھاتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    /* */