ایرانی خواتین نے تاریخ رقم کی، 40 سال بعد اسٹیڈیم میں مردوں کا فٹ بال میچ دیکھا

ایران میں خواتین نے چار دہائیوں بعد جمعرات کے روز مردوں کا فٹ بال میچ دیکھا۔ پچھلے ماہ فٹ بال کی عالمی تنظیم ’فیفا‘ نے ایران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ خواتین کو مردوں کے فٹ بال میچ دیکھنے کی اجازت دے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ایران میں خواتین نے چار دہائیوں بعد جمعرات کے روز مردوں کا فٹ بال میچ دیکھا۔ پچھلے ماہ فٹ بال کی عالمی تنظیم ’فیفا‘ نے ایران سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ خواتین کو مردوں کے فٹ بال میچ دیکھنے کی اجازت دے۔ غیر ملکی خبروں کے مطابق سرخ، سبز اور سفید رنگ کے لباس زیب تن کیے ایرانی خواتین کے لیے علیحدہ انکلوژر مختص کیے گئے تھے اور خواتین اور مرد شائقین کے درمیان کم از کم 200 میٹر کا فاصلہ رکھا گیا تھا۔ جبکہ 80 ہزار گنجائش کا یہ اسٹیڈیم تقریباً خالی تھا۔ واضح رہے کہ ایران میں خواتین پر اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے پر پابندی سن 1979ء میں ایرانی انقلاب کے بعد سے عائد کی گئی تھی۔

ایران اور کمبوڈیا کے درمیان عالمی کپ 2022 کے کوالیفائنگ میچ کو دیکھنے کے لیے تقریباً 4 ہزار ایرانی خواتین تہران کے فٹ بال اسٹیڈیم پہنچی تھیں۔ جن کی سکیورٹی پر 150 خواتین اہلکار تعینات تھیں۔ ایران، کمبوڈیا سے یہ میچ صفر کے مقابلے میں 14 گول سے جیتنے میں کامیاب رہا۔


انتیس سالہ نرس زہرہ پشاہی نے امریکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کو بتایا کہ وہ اتنی خوش ہیں کہ آخر کار انھیں یہ موقع مل ہی گیا کہ ہم اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے آئیں، یہ انتہائی خوشی کی بات ہے۔ اے پی کے مطابق خواتین نے نعرے لگائے کہ آخ کار ہم یہاں پہنچ ہی گئے۔

ایران میں جنسی امتیاز کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب 29 سالہ سحر خدا یاری نامی لڑکی کے خلاف مرد کا بھیس بدل کر فٹبال بال میچ دیکھنے کی کوشش کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا۔ سحر نے اپنے خلاف درج ہونے والے مقدمے کی سماعت کے موقع پر عدالت کے باہر اپنے آپ کو آگ لگالی اور ایک ہفتے بعد سحر خدا یاری کا انتقال ہوگیا تھا۔


سحر خدا یاری کے انتقال کے بعد ایرانی حکومت پر شدید تنقید کی گئی اور خواتین کو مردوں کے میچ دیکھنے کی اجازت دینے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ اس ضمن میں فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا نے بھی ایران پر دباؤ ڈالا کہ وہ خواتین کو فٹ بال میچ دیکھنے کی اجازت دے۔ یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں سعودی عرب نے بھی خواتین کو کھیلوں کے میچ دیکھنے کی اجازت دی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 Oct 2019, 6:33 PM