بجرنگ پونیا نے ’پدم شری‘ لوٹایا، فٹ پاتھ پر رکھ کر چھوڑ دیا، پی ایم مودی کو لکھا طویل خط

ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا کے نئے صدر سنجے سنگھ کے خلاف پہلوانوں میں ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے، پہلے ساکشی ملک نے کشتی چھوڑنے کا اعلان کیا، اور اب بجرنگ پونیا نے ’پدم شری‘ ایوارڈ لوڈا دیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>بجرنگ پونیا، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

بجرنگ پونیا، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

ریسلنگ فیڈریشن آف انڈیا (ڈبلیو ایف آئی) کے نئے صدر سنجے سنگھ کے خلاف پہلوانوں کی ناراضگی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ گزشتہ روز خاتون پہلوان ساکشی ملک نے سنجے سنگھ کے صدر بننے کی خبر پر کُشتی سے ریٹائرمنٹ کا ہی اعلان کر دیا تھا، اور آج مشہور پہلوان بجرنگ پونیا نے ’پدم شری‘ ایوارڈ لوٹانے کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا ہے۔ اس خط کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے بجرنگ نے لکھا ہے ’’میں اپنا پدم شری ایوارڈ وزیر اعظم جی کو واپس لوٹا رہا ہوں۔ کہنے کے لیے بس میرا یہ خط ہے۔ یہی میرا اسٹیٹمنٹ ہے۔‘‘

سوشل میڈیا پر بجرنگ پونیا کے ’پدم شری‘ ایوارڈ لوٹانے کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہو رہی ہے۔ یہ ویڈیو وزیر اعظم رہائش کے باہر کی بتائی جا رہی ہے۔ ویڈیو میں بجرنگ پونیا وزیر اعظم رہائش کے سامنے فٹ پاتھ پر ہی اپنا پدم شری ایوارڈ رکھ کر واپس لوٹتے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہاں موجود پولیس افسر ان سے ایسا نہ کرنے کی اپیل کر رہے ہیں، لیکن بجرنگ پدم شری رکھ کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ اس درمیان وزارت کھیل کا ایک بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ بجرنگ سے اس فیصلے کو پلٹنے کے لیے غور کرنے کی بات کہیں گے۔


بجرنگ پونیا نے پی ایم مودی کو جو خط لکھا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ ’’معزز وزیر اعظم جی، امید ہے آپ صحت مند ہوں گے۔ آپ ملک کی خدمت میں مصروف ہوں گے۔ آپ کی اس مصروفیت کے درمیان آپ کا دھیان ہماری کشتی کی طرف دلوانا چاہتا ہوں۔ آپ کو پتہ ہوگا کہ اسی سال جنوری ماہ میں ملک کی خاتون پہلوانوں نے ریسلنگ فیڈریشن پر قابض برج بھوشن سنگھ پر جنسی استحصال کے سنگین الزامات عائد کیے تھے۔ جب ان خاتون پہلوانوں نے اپنی تحریک شروع کی تو میں بھی اس میں شامل ہو گیا تھا۔ تحریک چلانے والے پہلوان جنوری میں اپنے گھر لوٹ گئے جب انھیں حکومت نے سخت کارروائی کی بات کہی۔ لیکن تین مہینے گزر جانے کے بعد بھی جب برج بھوشن پر ایف آئی آر تک نہیں کی تب ہم پہلوانوں نے اپریل ماہ میں دوبارہ سڑکوں پر اتر کر مظاہرہ کیا تاکہ دہلی پولیس کم از کم برج بھوشن سنگھ پر ایف آئی آر درج کرے۔ لیکن پھر بھی بات نہیں بنی تو ہمیں عدالت میں جا کر ایف آئی آر درج کروانی پڑی۔ جنوری میں شکایت دہندہ خاتون پہلوانوں کی تعداد 19 تھی جو اپریل تک آتے آتے 7 رہ گئی تھی۔ یعنی ان تین مہینوں میں اپنی طاقت کے دم پر برج بھوشن سنگھ نے 12 خاتون پہلوانوں کو اپنے انصاف کی لڑائی سے پیچھے ہٹا دیا تھا۔‘‘

خط میں بجرنگ پونیا آگے لکھتے ہیں کہ ’’تحریک 40 دنوں تک چلی۔ ان 40 دنوں میں ایک خاتون پہلوان مزید پیچھے ہٹ گئی۔ ہم سب پر بہت دباؤ آ رہا تھا۔ ہمارے احتجاج والے مقام کو تہس نہس کر دیا گیا اور ہمیں دہلی سے باہر کھدیڑ دیا گیا اور ہمارے مظاہرہ پر پابندی لگا دی۔ جب ایسا ہوا تو ہمیں کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ہم کیا کریں۔ اس لیے ہم نے اپنا میڈل گنگا میں بہانے کا فیصلہ کیا۔ جب ہم وہاں گئے تو ہمارے کوچ صاحبان اور کسانوں نے ہمیں ایسا نہیں کرنے دیا۔ اسی وقت آپ کے ایک ذمہ دار وزیر کا فون آیا اور ہمیں کہا گیا کہ ہم واپس آ جائیں، ہمارے ساتھ انصاف ہوگا۔ اسی درمیان ہمارے وزیر داخلہ جی سے بھی ہماری ملاقات ہوئی جس میں انھوں نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ خاتون پہلوانوں کے لیے انصاف میں ان کا ساتھ دیں گے اور ریسلنگ فیڈریشن سے برج بھوشن، اس کے کنبہ اور اس کے ساتھیوں کو باہر کریں گے۔ ہم نے ان کی بات مان کر سڑکوں سے اپنی تحریک ختم کر دی، کیونکہ ریسلنگ فیڈریشن کا حل حکومت نکالے گی اور انصاف کی لڑائی عدالت میں لڑی جائے گی، یہ دو باتیں ہمیں ٹھیک لگیں۔ لیکن گزشتہ 21 دسمبر کو ہوئے ریسلنگ فیڈریشن کے الیکشن میں برج بھوشن ایک بار پھر قابض ہو گیا ہے۔ اس نے بیان دیا ہے کہ- دبدبہ ہے اور دبدبہ رہے گا۔‘‘


خط میں اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے پونیا نے لکھا ہے کہ ’’خاتون پہلوانوں کے جنسی استحصال کا ملزم سرعام دوبارہ ریسلنگ کا مینجمنٹ کرنے والی یونٹ پر اپنا دبدبہ ہونے کا دعویٰ کر رہا تھا۔ اسی ذہنی دباؤ میں آ کر اولمپک میڈل فاتح واحد ہندوستانی خاتون پہلوان ساکشی ملک نے کشتی سے ریٹائرمنٹ لے لیا۔ ہم سبھی کی رات روتے ہوئے گزری۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کہاں جائیں، کیا کریں اور کیسے جئیں۔ اتنی عزت افزائی کی حکومت نے، لوگوں نے... کیا اسی عزت افزائی کے بوجھ تلے دب کر گھٹا رہوں۔ سال 2019 میں مجھے پدم شری سے نوازا گیا۔ کھیل رتن اور ارجن ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔ جب یہ ایوارڈس ملے تو میں بہت خوش ہوا۔ لگا تھا کہ زندگی کامیاب ہو گئی۔ لیکن آج اس سے کہیں زیادہ تکلیف ہو رہی ہے اور یہ ایوارڈس مجھے کچوٹ رہے ہیں۔ وجہ صرف ایک ہی ہے کہ جس ریسلنگ کے لیے یہ اعزاز ملے اس میں ہماری ساتھی خاتون پہلوانوں کو اپنی سیکورتی کے لیے ریسلنگ تک چھوڑنی پڑ رہی ہے۔ کھیل ہماری خاتون کھلاڑیوں کی زندگی میں زبردست تبدیلی لے کر آئے تھے۔ پہلے دیہات میں یہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ دیہاتی میدانوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ کھیلتے نظر آئیں گے۔ لیکن پہلی نسل کی خاتون کھلاڑیوں کی ہمت کے سبب ایسا ہو سکا۔ ہر گاؤں میں آپ کو لڑکیاں کھیلتی نظر آ جائیں گی اور وہ کھیلنے کے لیے بیرون ممالک تک جا رہی ہیں۔ لیکن جن کا دبدبہ قائم ہوا ہے، یا رہے گا، ان کی پرچھائی تک خاتون کھلاڑیوں کو ڈراتی ہے اور اب تو وہ پوری طرح دوبارہ قابض ہو گئے ہیں۔ ان کے گلے میں پھول مالاؤں والی تصویر آپ تک پہنچی ہوگی۔ جن بیٹیوں کو بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا برانڈ ایمبسڈر بننا تھا، ان کو اس حال میں پہنچا دیا گیا کہ ان کو اپنے کھیل سے ہی پیچھے ہٹنا پڑا۔ ہم ’اعزاز سے نوازے گئے‘ پہلوان کچھ نہیں کر سکے۔ خاتون پہلوانوں کو بے عزت کیے جانے کے بعد میں ’معزز‘ بن کر اپنی زندگی نہیں جی پاؤں گا۔ ایسی زندگی تاعمر مجھے کچوٹے گی۔ اس لیے یہ ’ایوارڈ‘ میں آپ کو لوٹا رہا ہوں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔