مرد سے برابری کا خواب، عورت اب بھی دو صدیاں دور

ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ 2018 کی رپورٹ کے مطابق اگر مردوں اور خواتین کے مابین ملازمت کے مواقعوں کا موجودہ فرق یوں ہی چلتا رہا تو عورتوں کو مردوں کی برابرآنے میں مزید دو صدیاں لگ سکتی ہیں۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

آج آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے دنیا کی چند پُر اثر شخصیات کا انتخاب کیا ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی کامیابی سے دلوں پر راج کرنے والی ان خواتین نے اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

عینی لینوکس مشہور گلوکارہ اور شاعرہ ہیں۔ ان کے مطابق، ’’میرے خیال سے عورتوں اور لڑکیوں کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر بھی یہ مسائل ہر جگہ ہیں، مسائل کی فہرست بہت طویل ہے۔ صحت اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق اپنی جگہ مگر تشدد، عصمت دری، بدسلوکی سے چھٹکارہ بھی عورت کا بنیادی حق ہے۔‘‘

جینا مارٹن ایک ایسی سرگرم کارکن ہیں، جنہوں نے خواتین کی خفیہ تصاویر بنانے کے خلاف انگلینڈ اور ویلز میں مہم چلائی تھی۔ ان کا یہ خیال ہے کہ ’’ہر مرتبہ عورت کو بتایا جاتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ آج کی خاتون جوکچھ بھی کرنا چاہتی ہے، اسے ہر چیز کے لیے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرے حساب سے عورت کو فیصلے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔‘‘

نیڈلیکا منڈیلا نیلسن منڈیلا کی نواسی ہیں۔ ان کے مطابق اکیسویں صدی کی عورت کا سب سے بڑا مئسلہ یہ ہے کہ ’’اس کے پاس اپنی پسند نہ پسند کا حق نہیں ہے۔کوئی خاتون کیا کرنا چاہتی ہے اور کیا بننا چاہتی ہے؟ اس فیصلے کا حق عورت کے اپنے پاس ہونا چاہیے۔ ہمیں ان عورتوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، جن کی راہ میں لوگ رکاوٹ بنتے ہیں۔‘‘

سارہ براؤن سابق برطانوی وزیراعظم کی اہلیہ ہیں۔ انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا، ’’میرے نزدیک عورت کی لیے سب سے بڑا مسئلہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے یکساں مواقع پیدا کرنا ہے۔ دنیا میں تقریباﹰ 130 ملین بچیاں ہیں، جو اسکول نہیں جا سکتیں حتیٰ کہ ان کا اسکول جانا بھی ایک خطرہ ہے کہ کہیں وہ کسی مشکل میں نہ پھنس جائیں۔‘‘

شولا موس وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کے لیے بھی کام کر رہی ہیں۔ ان کی رائے میں، ’’عورت کو کیسا ہونا چاہیے یہ معاشرہ طے کرتا ہے۔ عورت کے لیے سب سے بڑا چیلنج سماج کی وہ سوچ ہے، جو اس پر زبردستی لاگو کر دی گئی ہے۔‘‘

خواتین کے لیے مساوات کو یقینی بنانے کے لیے برطانیہ میں ٫وی ای پی یو کے‘ نامی ایک سیاسی پارٹی خاصی سرگرم ہیں۔ اس پارٹی کی سربراہ سوفی والکر کے مطابق،’’ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اپنے حقوق کہ لیے آواز اٹھانے کی لہر امریکا سے برازیل اور ہنگری سے پولینڈ تک جا پہنچہی ہے۔ یہ مہم غلط روایات کے خلاف ہے۔ یہ معاشرہ عورتوں کو کام کرنے کی اجازت اس لیے نہیں دیتا کیونکہ اس کا گھر میں بیٹھنا مرد کی نوکری کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ خواتین کو اپنے حقوق کے لیے ابھی بہت سی جنگیں لڑنا ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔