پختون خواتین کا معاشرے میں کردار

پختون معاشرہ ہمیشہ سے قبائلی معاشرہ رہا ہے۔ جہاں عرصے تک قبائلی نظام مروج رہا ہو وہاں پدر شاہی کی جڑوں کا مضبوط اور گہرا ہونا لازم و ملزوم ہوتا ہے۔ پختون خواتین کی جدوجہد کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔

پختون خواتین کا معاشرے میں کردار
پختون خواتین کا معاشرے میں کردار
user

Dw

پشتونوں یا پختونوں کے طرز زندگی کو''پشتون ولی‘‘ کہا جاتا ہے۔ چونکہ یہ ایک پری ماڈرن رواج تھا، تو یہاں ماڈرن اسٹیٹ بھی بہت دیر سے آیا۔ پختون، پشتون، پٹھان اور افغان ایک ہی گروپ کے لوگوں کے مختلف نام ہیں۔

کہتے ہیں کہ پشتون ولی رواج میں انفرادی آزادی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ نوآبادیاتی نظام نے بھی اسے تقویت پہنچائی۔ انگریز چاہتے تو اس خطے میں جمہوری اقدار کو پروان چڑھا سکتے تھے لیکن ان کے دور حکومت میں اسے غریب و پسماندہ طبقے کے ساتھ ساتھ عورتوں کے خلاف بھی استمعال کیا۔


انگریزوں نے اس قبائلی نظام کو مزید مضبوط کیا اور اپنے مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کیا۔ جرگہ کلچر کو ختم کرنے کے بجائے مزید فروغ دیا گیا۔ پشتون ولی رواج اشرافیہ کی جاگیر بن گئی تھی۔ ایسےگھٹن زدہ ماحول میں پختون خواتین نے کیسے اور کن حالات میں اپنے بنیادی حقوق کے لیے جنگ کی وہ ایک حیرت انگیز عمل ہے۔

باچا خان پشتون قوم کے مایہ ناز سیاستدان اور ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انہوں نے مدارس سے نکلنے والے بچوں اور اسکولوں کے طلبا کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا اور 1921ء میں ایک انجمن اصلاح بنائی۔ اس کا نام ''خدائی خدمت گار" رکھا۔ 1928ء میں ایک اسی پلیٹ فارم سے ''پختون‘‘ نامی ایک رسالہ نکالنا شروع کیا، جس میں پشتون خواتین کی نمائندگی کو ممکن بنایا گیا۔ پہلے اس رسالے میں صرف مردوں نے لکھنا شروع کیا۔ لیکن باچا خان کی صلاح پر خواتین نا صرف لکھنے کی جانب مائل ہوئیں بلکہ سیاسی سرگرمیوں میں بھی اپنا سکہ جمایا۔


پہلے خواتین نے مردوں کے نام سے رسالے میں کالم لکھنے شروع کیے۔ کریمہ مجید وہ پہلی خاتون تھیں، جنہوں نے سب سے پہلے اپنے نام سے لکھنا شروع کیا، جس پر برادری میں چہ مگوئیاں ہوئیں اور مزاحمت بھی۔ لیکن باچاخان نے بھرپور تعاون کیا اور خواتین کے حق میں آواز اٹھائی۔

پختون خواتین نے اس دور میں ایسے مضامین تحریر کیے اور شاعری کی جو اکیسویں صدی کے معیار کی تھی۔ شاعری میں حقوق نسواں کا عنصر بھی تھا اور جمہوریت کی خواہش بھی۔ آزادی کا دیرینہ خواب بھی تھا اور عشق و محبت سے وابستگی بھی۔ انگریزوں کے دور میں پختون خواتین نے خدائی خدمت گار تحریک کے زیرانتظام آزادی کے حق میں جلوس بھی نکالے۔


الف جاناں خٹک تحریک آزادی کی پہلی بہادر پختون حریت پسند خاتون کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور حقوق نسواں کی علمبردار بھی تھیں۔ الف جاناں خٹک نے تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ اپنی بے باک تحاریر اور خواتین کے حقوق پر آواز اٹھانے کی پاداش میں کئی بار جیل گئیں۔ لیکن آخری دم تک اپنے نظریات پر قائم و دائم رہیں۔

سیدہ بشری بیگم پختون خاتون شاعرہ رہی ہیں، جنہوں نے زیادہ تر اپنی مادری زبان میں شاعری کی۔ ان کی شاعری خواتین کے حقوق اور آزادی سے بھرپور ہے۔ پاکستان بننے کے بعد پختون خواتین نے اپنی خودمختاری اور آزادی کے لیے خود جدوجہد کی۔ گاؤں کی عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں میں کام کرتی تھیں۔ تو شہری خواتین میں تعلیم حاصل کرنے میں دلچسپی واضح نظر آئی کہ زیادہ تر تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں میں اکثریت خواتین کی ہوتی تھیں۔


نسیم ولی خان کو آئرن لیڈی بلاجواز نہیں کہا جاتا ہے۔ جس دور میں بیگم نسیم ولی اپنے روشن خیالات کو لے کر سیاست کے میدان میں آئیں اس وقت پختون خواتین ایسا قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر ولی خان کے جیل جانے کے بعد پارٹی کی کمان سنبھالی اور سیاست میں اپنا سکہ منوایا۔

ضیاء الحق کے مارشل لاء میں جب چادر چار دیواری کا نعرہ لگایا گیا تو اس میں تمام ملک کی خواتین کی آزادی سلب ہوئی لیکن سب سے زیادہ متاثر پختون خواتین ہوئیں۔ حجاب کا تصور اس سے پہلے اس صورت میں کہیں نہیں تھا۔ چونکہ پختون معاشرے میں قبائلی اثرات پہلے سے موجود تھے لہذا پردہ پشتون خواتین پر آسانی سے لاگو کر دیا گیا۔ بیگم نسیم ولی ضیاء کے آمرانہ اور عورت دشمن قوانین کے خلاف آخری دم تک مسلسل ڈٹ کر لڑیں۔


زریں سرفراز جمہوریت کی علمبردار خاتون سیاستدان تھیں۔ 1985ء میں انہوں نے پندرہ رکنی کمیشن برائے خواتین کی سربراہی کی اور ضیاءالحق کے خواتین کی آزادی کو سلب کرنے والے کالے قوانین میں واضح ترامیم کیں۔ تاحیات ویف (وومن اکنامک فورم) کی سپورٹر رہیں اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف جدوجہد کرتی رہیں۔

پشاور کی مریم بی بی نے 1993ء میں خویندو کور کی بنیاد رکھی۔ ان کی شب و روز کی انتھک محنت نے ان کی تنظیم کو قومی اور بین الاقوامی طور پر ایک اعلی مقام بخشا۔ مریم بی بی کی تنظیم خویندو کور نے ایک گاؤں سے اپنے چار کارکن کے ساتھ مل کر خواتین کی فلاح و بہبود کا بیڑا اٹھایا اور آج تین سو سے زائد شہروں میں ان کا نیٹ ورک موجود ہے۔


مریم بی بی کا حدف خواتین کی تعلیم اور بنیادی صحت کے حصول کو ممکن بنانا تھا۔ ان کی تنظیم نا صرف خواتین بلکہ مردوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کام کرتی ہے۔ مریم بی بی کو ان کے کام پر قومی اور بین الاقوامی سینکڑوں اعزازات اور انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔ پشاور کی زینون بانو کو پشتو زبان کی پہلی خاتون فکشن لکھاری کہا جاتا ہے۔ انہوں نے شاعری، ناول، افسانوں میں خواتین کے حقوق پر خوب لکھا، جس کا مقصد خواتین میں شعور بیدار کرنا تھا۔

بشری گوہر پاکستانی سیاست میں شامل ان سنجیدہ اور معتبر سیاستدانوں کی فہرست میں شامل ہیں، جنہوں نے سیاست کو عزت دی۔ پارلیمنٹ کی ممبر رہی۔ اعلی تعلیم یافتہ اور باوقار خاتون سیاستدان بشری گوہر اپنے نام کی طرح پختون قوم کا گوہر نایاب ہیں۔


کرک سے تعلق رکھنے والی عصمت رضا شاہجہان ایک ایسی پختون عورت ہیں، جنہوں نے سماج کے بنائے فرسودہ رسم و رواج کو اپنے پیروں تلے روند کر اپنے آپ کو منوایا۔ عوامی ورکرز پارٹی کی مایہ ناز رہنما عصمت شاہجہاں نے ہمیشہ عوام کے حقوق، عورتوں کی تعلیم اور آزادی کے لیے آواز اٹھائی اور ساتھ ہی وہ کچی آبادیوں کو ڈھانے کے خلاف بھی پیش پیش رہی ہیں۔ نئی نسل کو اسٹڈی سرکل کے توسط ایک نئی سوچ دی۔ سیاسی اور سماجی حلقوں میں ان کانام ایک بہادر پختون خاتون کے طور پر لیا جاتا ہے۔

ملالہ یوسف زئی کو دنیا میں کون نہیں جانتا۔ سوات سے تعلق رکھنے والی اس پختون بچی نے اپنی منفرد سوچ اور علم سے محبت کے لیے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کی۔ ملالہ نے آنے والی لڑکیوں ہی نہیں بلکہ پاکستان کی تمام نئی نسل کے لیے نوبیل انعام جیت کر مثال قائم کی۔ پختون قوم اس پر جتنا فخر کرے کم ہے۔ آج پوری دنیا کے سربراہان مملکت اس پختون لڑکی سے ملنا اور اس کی بات سننا اپنی عزت افزائی سمجھتے ہیں۔


یہ صرف چند پختون خواتین ہیں جن کا یہاں ذکر ہوا ورنہ اس خطے کی ایسی ہزاروں خواتین اپنے حصے کی شمع جلا رہی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ آج اکیسویں صدی میں افغان پختون خواتین کے لیے تعلیم کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ ان یونیورسٹی جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے ہتھکنڈوں سے کیا خواتین کے ذہنوں پر پہرے بٹھائے جا سکتے ہیں؟

خواتین کا کردار معاشرے کی بُنت میں کتنا اہم جز ہوتا ہے اس کا ادراک ہم جیسی پسماندہ قوموں کو شاید ہی کبھی ہو سکے۔ معاشرہ چاہے جتنا بھی پسماندہ اور دقیانوسی ہو روشنی کی کرن کو نا کوئی روک سکا ہے نا روک سکےگا۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔