ہندوستان میں جاری مظاہرے اور جرأت مند خواتین

ہندوستان میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ ان میں کئی احتجاجی دھرنے مختلف باغوں میں خواتین کی جانب سے دیئے گئے ہیں۔ ان خواتین کو بہت ہی باہمت قرار دیا جا رہا ہے۔

بھارت جاری مظاہرے اور جرات مند خواتین
بھارت جاری مظاہرے اور جرات مند خواتین
user

ڈی. ڈبلیو

گزشتہ چار ہفتوں سے نئی دہلی کے ہائی وے کی ناکہ بندی کرنے والی خواتین کو انتہائی جرت مند کہا جا رہا ہے۔ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والی ان خواتین سے بھارت بھر میں ہزاروں دیگر خواتین بھی متاثر ہو کر اپنی آواز اٹھا رہی ہیں اور وہ بھی ملک کی ہندو قوم پرست حکومت کے خلاف کھڑی ہو رہی ہیں۔

بھارت کے بیس سے زائد شہروں میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے جاری ہیں اور شہری دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ رضاکاروں کی ایک بڑی تعداد ان مظاہرین کوکھانے پینے کی اشیاء، کمبل اور چائے وغیرہ پہنچانے کا کام کر رہے ہیں۔


کہا جا رہا ہے کہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد ان دو سو خواتین کو خراج عقیدت پیش کر رہی ہے، جو دہلی کے شاہین باغ میں احتجاج کر رہی ہیں۔ ان خواتین کے شب و روز اسی مقام پر گزر رہے ہیں۔ گیارہ دسمبر کو بھارتی پارلیمان کی جانب سے اس بل کی منظوری کے بعد سے شروع ہونے والی احتجاجی ریلیوں میں ہزاروں افراد شرکت کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔

بھارت کے تقریباً دو سو ملین مسلمانوں میں سے زیادہ تر خدشہ ہے کہ اس متنازعہ قانون کے ذریعے حکومت ان کی شہریت ختم کرنا چاہتی ہے۔ تاہم نئی دہلی حکومت نے ان الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اس قانون کو انسانی ہمدردی کے طور پر پیش کرتی ہے۔


اسی طرح ریاست بہار میں کئی سو مظاہرین نےکم از کم تین ہفتے ایک پارک میں دھرنا دیے رکھا۔ اس موقع پر مہاتما گاندھی کی ایک تصویر بھی وہاں نصب تھی۔ اس مشرقی ریاست میں دس مختلف مقامات پر احتجاج جاری ہے، جس میں دارالحکومت پٹنہ کے قریب سبزی باغ بھی شامل ہے۔ پٹنہ کے سابق میئر افضال امام کے مطابق،'' یہ ایک اور شاہین باغ ہے۔‘‘ ایک سرگرم کارکن شگفتہ امین کے مطابق،''حکومت ہماری شہریت ہم سے چھینا چاہتی ہے اور اس پر ہم خاموش تماشائی بننے نہیں رہ سکتے۔‘‘

اتر پردیش میں وزیر اعظم نریندر مودی کے حامی حکومت مظاہرین کے خلاف سخت کارروائیاں کر رہی ہے۔ اسی ریاست میں پولیس کی کارروائیوں میں سب سے زیادہ یعنی انیس مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ چھ ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 Jan 2020, 9:00 AM