مہنگائی کے سبب بھارتی خواتین اپنے سہاگ کی نشانی فروخت کر رہی ہیں

بھارت میں کووڈ کی وبا کے سبب بیشتر خاندان مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔ لوگ روزمرہ کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اپنے سب سے قیمتی اثاثہ سونا اور ہندو خواتین اپنے 'منگل سوتر‘ بھی فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔

علامتی فائل تصویر
علامتی فائل تصویر
user

Dw

ممبئی کے زیورات کے بازار میں کویتا جوگانی اپنی شادی میں ملنے والی سونے کے کنگن کو ایک جوہری کے دکان پر انتہائی گرفتہ دلی کے ساتھ ترازو میں رکھنے پر مجبور ہیں۔ وہ ان ہزاروں بھارتی شہریوں میں سے ایک ہیں، جنہیں اپنا سب سے قیمتی اثاثہ سونا بھی فروخت کرنا پڑا ہے۔

کویتا کے لیے اپنے سونے کے کنگن فروخت کرنے کا فیصلہ کوئی آسان نہیں تھا، لیکن گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران کورونا وائرس کے سبب لاک ڈاون کی وجہ سے ملبوسات کا ان کا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے اور ان کے سامنے دکان کا خرچ اور 15 ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں رہ گیا تھا۔


رپورٹوں کے مطابق بظاہر ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت کووڈ انیس سے پیدا ہونے والے اقتصادی مسائل سے نکل رہی ہے لیکن بہت سے بھارتی شہریوں کو مالی مشکلات سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ ابھی بھی نہیں مل سکا۔

کویتا جوگانی کہتی ہیں،”میرے پاس کنگن کو فروخت کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں رہ گیا تھا۔" کویتا اس بات سے بھی پریشان تھیں کہ دکاندار ان کی اس قیمتی اور جذباتی اثاثے کی کیا قیمت لگاتا ہے۔ پینتالیس سالہ کویتا کا کہنا تھا،”میں نے یہ کنگن تیئیس برس قبل اپنی شادی کے وقت خریدے تھے۔‘‘


عظیم پریم جی یونیورسٹی کی جانب سے کرائی گئی ایک ریسرچ کے مطابق گزشتہ ایک سال میں کاروبار بند ہونے اور ملازمتیں ختم ہو جانے سے تیئیس کروڑ بھارتی غربت میں پہنچ گئے۔ اقتصادی بحران کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو کرایہ، بچوں کے اسکول کی فیس اور ہسپتالوں کے بل کی ادائیگی کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔

آمدنی نہیں خرچ میں اضافہ

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ایندھن، بجلی، خوردنی اشیاء وغیرہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ مالی پریشانی سے دوچار بہت سے کنبے اور چھوٹے کاروبار کرنے والے اپنے آخری سہارے سونے کے زیورات کو فروخت کر رہے ہیں یا پھر انہیں گروی رکھ کر قرض لے رہے ہیں۔


بھارت کے مرکزی بینک ریزرو بینک آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2021 کے ابتدائی آٹھ مہینوں کے دوران بینکوں نے سونے کو گروی رکھنے کے بدلے میں تقریباً چار ارب 71 کروڑ روپے بطور قرض دیے۔ یہ گزشتہ برس کے مقابلے 74 فیصد زیادہ ہے۔

قرض کے طور پر ملنے والی اس رقم میں سے بہت سارا پیسہ لوگوں نے قرض کی ادائیگی مٰن صرف کر دیا۔ جو لوگ سونے کے بدلے میں لیے گئے قرض واپس کرنے میں ناکام رہے ان کا سونا نیلام کر دیا گیا۔


’سونا برے وقت کا ساتھی‘

ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق بھارتی شہریوں نے سن 2020 میں 315.9 ٹن سونے کے زیورات خریدے جو امریکا، یورپ اور مشرقی وسطی میں سونے کے زیورات کی مجموعی خریداری کے برابر تھا۔

ایک اندازے کے مطابق بھارتی کنبوں میں لگ بھگ 24000 ٹن یعنی 1.5کھرب ڈالر کے برابر کی مالیت کے سونے سکّوں، زیورات اور چھوٹے ٹکڑوں کی شکل میں موجود ہے۔


آل انڈیا جیم اینڈ جیولری ڈومیسٹک کونسل کے ڈائریکٹر دنیش جین کہتے ہیں،”خواتین یا کسی بھی گھر کے لیے یہ واحد سوشل سکیورٹی ہے کیونکہ بھارت میں حکومت کی طرف سے سوشل سکیورٹی کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔" وہ کہتے ہیں ”سونا ایک نقدی کی طرح ہے، آپ جب چاہیں، دن میں یا رات میں کسی بھی وقت اسے فروخت کر سکتے ہیں۔"

تکلیف دہ صورت حال

ممبئی میں زیورات کے لیے مشہور زاویری بازار میں 106سالہ پرانی دکان کے مالک کمار جین نے بتایا،”انہوں نے کبھی بھی اتنے زیادہ لوگوں کو سونا فروخت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔کورونا وائرس کی وبا سے پہلے ایسا نہیں تھا۔"


جین بتاتے ہیں کہ حالیہ مہینوں میں ان کے کسٹمرز بالخصوص خواتین نے انہیں سونے کی چوڑیاں، کنگن، انگوٹھیاں، ہار اور جھمکے سمیت کئی طرح کے زیورات فروخت کیے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،”سب سے زیادہ خراب اس وقت لگتا ہے جب کوئی عورت اپنا منگل سوتر فروخت کرتی ہے۔ یہ تو شادی شدہ خاتون کی نشانی ہے۔"

کمار جین کہتے ہیں کہ ان کا دل اس وقت رو پڑتا ہے جب کوئی خاتون اپنے گلے سے منگل سوتر اتارتی ہے اور کہتی ہے ”مجھے اس کے بدلے میں پیسے دے دو۔" یہ سب سے تکلیف دہ منظر ہوتا ہے۔


ممبئی میں ملبوسات کا کاروبار کرنے والی کویتا جوگانی اپنے کچھ زیورات فروخت کرنے کے بعد راحت کا سانس لے رہی ہیں۔ انہیں سونے کے آٹھ کنگن، گلے کے ہار اور کچھ انگوٹھیوں کے بدلے میں دو لاکھ روپے ملے ہیں۔

کویتا کہتی ہیں،”پہلے جب میری والدہ کہتی تھیں کہ تمہیں سونے کے لیے پیسہ جوڑنا چاہیے تو میں ان پر دھیان نہیں دیتی تھی، لیکن اب مجھے حقیقت کا اندازہ ہو گیا ہے۔ ہر ایک کو سونے کی خریداری کے لیے رقم جمع کرنی چاہیے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔