کيا سعودی عرب کا خواب پورا ہو پائے گا؟

سعودی حکومت کی کوشش ہے کہ آئندہ چند برسوں ميں سعودی عرب سياحت کے ليے جانا پہچانا جائے۔ مگر قدامت پسند معاشرہ، سخت قوانين اور انسانی حقوق کا ناقص سابقہ ريکارڈ اس ہدف کے حصول کی راہ ميں رکاوٹيں ہيں۔

کيا سعودی عرب کا خواب پورا ہو پائے گا؟
کيا سعودی عرب کا خواب پورا ہو پائے گا؟
user

Dw

سعودی عرب نے رواں ماہ امریکی کمپنی 'ہيبيٹاس‘ کے ساتھ کئی ملین ڈالر کے ايک معاہدے پر دستخط کیے۔ يہ وہی کمپنی ہے جس نے صحرا میں سالانہ 'برننگ مین‘ فیسٹیول پر لگژری کیمپنگ کا آغاز کیا۔ مذکورہ فيسٹیول کثرت سے شراب نوشی، رقص، منشیات اور نازيبہ ملبوسات کے ليے جانا جاتا ہے۔ 'ہيبيٹاس‘ خود کو ماحول دوست اور ایک ثقافتی کمپنی کے طور پر پيش کرتی ہے، جو پرتعیش گھروں اور آرام و سکون کے ديگر شاندار مقامات تيار کرتی ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب ایک ایسے شاہی خاندان کی حکمرانی کے لیے مشہور ہے، جو کسی سیاسی مخالفت کو برداشت نہیں کرتا، سزائے موت پر عمل درآمد میں دير نہيں کرتا اور جو ایک انتہائی قدامت پسند اور مذہبی معاشرہ ہے۔


تو پھر سینکڑوں ملین ڈالر کے کاروباری معاہدے ميں ہے کيا؟

سعودی عرب سیاحت کے شعبے میں اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ وژن 2030 کے تحت طویل المدتی منصوبہ يہی ہے کہ ملکی معیشت کا تيل پر انحصار کم کر کے اسے زيادہ متنوع بنايا جائے۔ رياض حکومت چاہتی ہے کہ سیاحت سے حاصل ہونے والی قومی آمدنی کو دس فيصد تک پہنچايا جائے، جو اس وقت تين فیصد ہے۔ مقصد يہ بھی ہے کہ اس شعبے ميں ملازمتوں کے ايک ملين نئے مواقع پيدا ہوں۔

تیل سے مالا مال سعودی مملکت نے سن 2019 میں الیکٹرانک ویزا کے اجرا کے ساتھ 49 ممالک کے سياحوں کو ملک میں آسانی سے داخلے کی اجازت دی۔ فی الحال ایک ای ويزاکی قیمت 142 ڈالر ہے۔


میونخ کی یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز سے وابستہ سیاحتی امور کے پروفیسر مارکوس پِل مائر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وہاں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا مشاہدہ کرنا انتہائی دلچسپ ہے کیونکہ کچھ عرصہ پہلے تک سعودی عرب سیاحتی ميدان ميں نہيں تھا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس بات کا واضح طور پر اندازہ لگانا ابھی بہت جلد ہو گا کہ آیا رياض حکومت اپنی ان کوششوں ميں کامیاب بھی ہو جائے گی؟‘‘

اعداد و شمار کے مطابق گرچہ سعودی عرب کے سیاحت سے متعلق اہداف کا حصول کافی مشکل ہے ليکن یہ ناممکن نہیں۔ مثال کے طور پر ہمسایہ ملک متحدہ عرب امارات میں قومی آمدنی میں سیاحت کا حصہ تقریباً 12 فیصد ہے۔ سعودی حکومت ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ ميدان ميں اتری ہے۔ ساتھ ہی ہوٹلنگ کے شعبے میں ہلٹن، حیات اور ایکور جيسے کئی بڑے ناموں کے ساتھ معاہدے بھی کيے گئے ہيں جبکہ ایک نئی ایئر لائن ریاض ایئر بھی سن 2025 تک اپنی تجارتی پروازيں شروع کر دے گی۔ دريں اثناء حکام نے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست ميں کئی شعودی مقامات کی شموليت کے ليے بھی کوششيں شروع کر دی ہيں۔


مشرق وسطیٰ میں تیز ترین ترقی

پچھلے سال لندن میں قائم ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل کی رپورٹ ميں يہ انکشاف کيا گيا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کا سیاحتی شعبہ سب سے تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ پيش گوئی کی گئی ہے کہ 2025 تک تقریباً 40 فیصد زيادہ سياح سعودی عرب کا رخ کر رہے ہوں گے۔

دوسری جانب کئی چيلنجز بھی موجود ہيں۔ سیاحت کے شعبے کو موسمیاتی تبدیلیوں سے خطرہ لاحق ہے اور 2019 میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں 'سیاحت کی تحقیق‘ کے مصنفین نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ ان چار خطوں میں سے ایک ہے، جہاں موسمياتی اور ماحولیاتی تبديليوں کے اثرات سب سے زیادہ نمایاں ہوں گے۔


پانی کی کمی سعودی عرب کے سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے کيونکہ اس ملک کا بیشتر حصہ صحرائی ہے۔ نتيجتاً ڈی سیلینیشن پلانٹس کو چلانے کے لیے بڑی مقدار میں توانائی استعمال ہوتی ہے، جو زمینی پانی کے ذرائع کو بھی تیزی سے ختم کر رہی ہے۔

ديگر چیلنجز، جو سعودی عرب میں سیاحت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہيں، وہ ہيں اس ملک ميں انسانی حقوق کا منفی ریکارڈ اور انتہائی قدامت پسند مقامی ثقافت۔ سعودی عرب ميں خواتین کے حقوق پر قدغنيں آج بھی حقيقت ہيں۔ مقامی لوگوں کے لیے شادی سے پہلے جنسی تعلقات اور ہم جنس پسندانہ جسمانی تعلقات بھی جرائم کے زمرے ميں آتے ہيں۔ سن 2019 کے بعد اس قسم کے قوانین میں نرمی آئی ہے لیکن صرف بین الاقوامی سياحوں کے لیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔