کینیڈا: شعبہ تعلیم کے ہزاروں ملازمین متنازعہ قانون کی خلاف ورزی کیوں کر رہے ہیں؟

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ریاست اونٹاریو کی قانون سازی کے طریقہ کار کو ’’لوگوں کے بنیادی حقوق پر حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔

کینیڈا: شعبہ تعلیم کے ہزاروں ملازمین متنازعہ قانون کی خلاف ورزی کیوں کر رہے ہیں؟
کینیڈا: شعبہ تعلیم کے ہزاروں ملازمین متنازعہ قانون کی خلاف ورزی کیوں کر رہے ہیں؟
user

Dw

کینیڈا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اونٹاریو کے ہزاروں تعلیمی ملازمین نے جمعے کے روز اس نئے متنازعہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہڑتال کی، جس کے تحت ہڑتال کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ہڑتال میں شعبہ تعلیم کے معاونین، ورکرز کے نگراں اور انتظامی عملہ بھی شامل تھا۔ ہڑتال کی وجہ سے ریاست بھر کے اسکولوں کو زبردستی بند کرنا پڑا۔

گزشتہ جمعرات کو ہی صوبائی حکومت نے جلد بازی میں ایک قانون وضع کیا، جس کے تحت تقریباً 55 ہزار شعبہ تعلیم سے منسلک ملازمین پر متنازعہ معاہدہ تھوپنے کی کوشش کے ساتھ ہی ’کینیڈین یونین آف پبلک ایمپلائز‘ (سی یو پی ای) کے ملازمین پر ہڑتال کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔


ریاست میں پریمیئر ڈگ فورڈ کی دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی پروگریسو کنزرویٹو، حکومت ہے۔ اس نے ایک متنازعہ قانونی ہتھکنڈہ استعمال کرتے ہوئے کینیڈا کے اس چارٹر آف رائٹس کے بعض پہلوؤں کو زیر کرنے کی کوشش کی ہے، جو ملازمین کو یونین بنانے کے حق کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ٹورنٹو میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس قانون کے بارے میں کہا کہ اس کا ’’حقیقت میں فعال استعمال لوگوں کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے اور اس معاملے میں اجتماعی صلاح و مشورہ کے لیے، جو بنیادی حقوق حاصل ہیں، اس پر بھی حملہ ہے۔‘‘


انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ’’میں نے آج صبح اونٹاریو حکومت کے اس متنازعہ اور نامناسب شق کے استعمال کے بارے میں قومی یونین کے رہنماؤں سے بات کی، جو کارکنوں کے بنیادی حقوق اور ان کی آزادیوں کو مجروح کرتی ہے۔ ہماری حکومت اپنے ملک کے ورکرز کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے۔‘‘

تعلیمی ورکرز کو بھاری جرمانے کا سامنا

اونٹاریو کے نئے ’کیپنگ اسٹوڈنٹس ان کلاس‘ ایکٹ کے تحت ہڑتال کرنے والے ملازمین کو یومیہ تقریباً تین سو امریکی ڈالر کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ساتھ ہی اگر یونین نے ہڑتال کی تو اسے پانچ لاکھ ڈالر تک جرمانہ دینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔


اس نے ملازمین پر ایک نیا معاہدہ بھی تھوپنے کی کوشش کی ہے، جس کے تحت تنخواہوں میں 1.5 سے 2.5 فیصد تک ہی اضافہ شامل ہے، جبکہ یونین کی جانب سے زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اوسط افراد زر کی شرح کے مطابق سات فیصد کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اونٹاریو کے وزیر تعلیم اسٹیفن لیکس نے اوور رائڈ اختیارات کے استعمال کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کووڈ وبائی امراض کی وجہ سے طلبہ کو پچھلے دو سالوں سے کافی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس وقت تمام طلباء کو کلاس روم میں واپس لانے سے زیادہ کوئی بھی چیزاہم نہیں ہے اور ایسا کرنے کے لیے ہمارے پاس جو بھی ٹول دستیاب ہیں، ہم ان کا استعمال کریں گے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ہڑتال غیر قانونی ہے اور سی یو پی ای کے ورکرز کے خلاف اونٹاریو لیبر ریلیشنز بورڈ میں شکایت بھی درج کرائی گئی ہے۔


اس کے باوجود یونین کے کارکنوں نے لیکس کے دفتر کے باہر سمیت صوبے بھر میں درجنوں مقامات پر دھرنا شروع کر دیا۔ یونین نے خبردار کیا ہے کہ اسکول کے معاون ملازم اتنی جلدی نوکری پر واپس آنے والے نہیں ہیں۔

متنازعہ قانون

کینیڈا کے چارٹر آف رائٹس اینڈ فریڈم کے تحت ملازمین کو یونین بنانے اور ہڑتال کرنے کے حقوق حاصل ہیں، تاہم صوبائی مقننہ یا پارلیمنٹ کو چارٹر کے بعض حصوں کو زیر کرنے کی اجازت بھی حاصل ہے، جس کے تحت وہ آئینی چیلنجوں کو نظر انداز کرنے کی بھی مجاز ہیں۔


ماضی میں فورڈ نے ٹورنٹو کی سٹی کونسل کے سائز کو کم کرنے اور رواں برس صوبائی انتخابات میں تیسرے فریق کے اشتہارات کو محدود کرنے کے لیے بھی اسی متنازعہ شق کا استعمال کیا تھا اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی تھی۔

صوبہ کیوبک نے حال ہی میں سرکاری ملازمین کو صلیب یا حجاب جیسی مذہبی علامتیں پہننے سے روکنے کے لیے اسی متنازعہ اختیار کا استعمال کیا تھا، جس کی وجہ سے اس پر تنقید بھی ہوئی تھی۔ کینیڈین سول لبرٹیز ایسوسی ایشن نے اونٹاریو کے اس کیس کے حوالے سے متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کینیڈین ورکرز کے حقوق کو ‌’’ہماری آنکھوں کے سامنے کچلا جا رہا ہے۔‘‘


ملک کے وزیر انصاف ڈیوڈ لیمٹی نے اس کے استعمال پر نظر ثانی کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ آئینی شق ’’پارلیمان کی بالادستی کے تحفظ کے لیے ہے، لیکن اسے آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔