اقوام متحدہ اپنے افغان مشن پر نظرثانی کیوں کر رہا ہے ؟

اقوام متحدہ نے الزام لگایا ہے کہ طالبان خواتین کو اپنے مبینہ اصولوں اور افغانوں کی خدمت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ لہذا عالمی ادارہ اپنے افغان مشن پر نظر ثانی کر رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس&nbsp;</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

Dw

اقوام متحدہ نے منگل کے روز بتایا کہ چونکہ طالبان حکمرانوں نے اس کثیر قومی تنظیم میں خواتین کی ملازمت پر پابندی عائد کر دی ہے اس لیے وہ افغانستان میں اپنے امدادی مشن کے مستقبل پر غور کر رہا ہے۔

گزشتہ ہفتے طالبان کی طرف سے عائد کی گئی اس پابندی پر تبصرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے منگل کے روز اسے بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیا اور کہا کہ نتیجے کے طور پر وہ اس حکم کی تعمیل نہیں کرسکتا۔ عالمی ادارے نے اپنے تمام ملازمین سے کہا ہے کہ سوائے انتہائی مخصوص ضرورت کے وہ دفتر آنا بند کردیں۔


افغانستان میں اقوام متحدہ امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کی سربراہ روزا اوتن بائیفا نے کہا کہ 5 مئی تک آپریشنل جائزے کا کام شروع ہوجائے گا۔ انہوں نے اشارہ دیا کہ اقو ام متحدہ اپنی سرگرمیاں معطل کرسکتا ہے۔

اقوام متحدہ نے کیا کہا؟

خواتین پر پابندی کی سخت مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے طالبان پر الزام لگایا کہ وہ "اسے افغان عوام کی حمایت، انہیں مدد کرنے اور ان اصولوں اور ضابطو ں پر عمل کرنے، جن کی پاسداری کرنا ہمارا فرض ہے، کے درمیان ایک خوفناک انتخاب کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے زور دے کر کہا کہ افغانستان کے عوام پر پابندی کے کسی بھی منفی نتائج کے ذمہ دار طالبان ہوں گے۔


اس نے کہا کہ وہ ضروری مشاورت کرے گا، ضروری آپریشنل ایڈجسٹمنٹ کرے گا اور آپریشنل جائزے کے دوران ممکنہ نتائج کے لیے ہنگامی منصوبوں کو تیز کرے گا۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق تقریباً 400 خواتین اقوام متحدہ کے مختلف امدادی سرگرمیوں کے لیے کام کرتی ہیں۔

طالبان کی جانب سے دسمبرمیں پہلی مرتبہ خواتین ملازمین پر پابندیوں کے اعلان کے بعد بہت سی غیر سرکاری تنظیموں نے افغانستان چھوڑ دینے کا اعلان کیا تھا البتہ اس وقت اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی خواتین کو اس سے مستشنٰی رکھا گیا تھا۔ تاہم گزشتہ ہفتے طالبان نے کوئی وجہ بتائے بغیر خواتین کو اقو ام متحدہ کے لیے کام کرنے پر بھی پابندی عائد کردی۔


صحت کی دیکھ بھال کرنے والی خواتین کارکنان، دیگر خواتین کو صحت خدمات فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ طالبان سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ کم از کم ان خواتین کو اپنے احکامات سے مستشنٰی رکھیں گے۔

خواتین پر پابندی میں توسیع

طالبان نے اگست 2021 میں کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سے افغان خواتین کے خلاف اپنی پابندیوں میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ جب انہوں نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اس وقت عالمی برادری کے ساتھ اپنی پہلی بات چیت میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں کریں گے کیونکہ یہ "اسلامی قانون کا حصہ ہے۔"


لیکن اب خواتین پر ایک خاص عمر کے بعد تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد ہے اور انہیں گھر سے باہر نکلنے کے لیے پردہ کرنا ضروری ہے۔ وہ کسی محرم کے بغیر سفر نہیں کرسکتیں نیز سرکاری ملازمتوں کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی غیر سرکاری گروپوں کے ساتھ بھی کام نہیں کرسکتیں۔

یہ حالات سن 1990کی دہائی میں طالبان کے پہلے دور حکومت کی یادیں تازہ کرتے ہیں، جس کا سن 2001 میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے ساتھ خاتمہ ہوگیا تھا۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ تازہ ترین پابندی دیگر "تفریق آمیز" اقدامات کا حصہ ہیں جس کا مقصد" افغانستان میں عوامی اور روز مرہ کی زندگی کے بیشتر شعبوں میں خواتین اور لڑکیوں کی شراکت داری کو سختی سے محدود کرنا ہے۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔