آئیے غریب کے عمران خان سے ملیے!

یہ شام تھی، جب اچانک گھر کی ملازمہ نے بیل بجائی۔ وہ نم آنکھوں کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی۔ میں نے پوچھا، خدا خیر کرے، گھر میں سب خیر ہے؟ کہنے لگی باجی سنا ہے عمران خان کو پولیس نے پکڑ لیا۔

آئیے غریب کے عمران خان سے ملیے!
آئیے غریب کے عمران خان سے ملیے!
user

Dw

شدید حیرت کے ساتھ میں نے کہا، ''یہ سچ ہے عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا ہے مگر تم کیوں رو رہی ہو؟‘‘ زبان پر بے ساختہ آئی مسکراہٹ روک کر میں نے کہا، ''مجھے نہیں پتہ تھا ہماری رفیع بھی قوم یوتھ سے ہیں۔‘‘ اسے سمجھ تو کچھ نہیں آئی میری بات کی لیکن آنسو صاف کر کے میری جانب متوجہ ہوئی۔

باجی عمران کیسے کچھ غلط کر سکتا ہے بھلا؟ دیکھیں وہ مجھے نہیں جانتا، مجھے چالیس سال ہو گئے لوگوں کے گھروں میں کام کرتے، دھکے کھائے ساری عمر، کبھی کسی نے نہ سوچا ہم غریبوں کا لیکن باجی عمران خان آیا تو میری امی کی آنکھوں کا آپریشن اے سی والے ہسپتال میں ہوا۔ میرے بیٹے نے وہ جو کمپیوٹر والا کورس ہوتا ہے وہ بس دو ہزار میں کر لیا، بڑا مہنگا کورس تھا وہ۔


وہ انگلیوں پر کچھ گننے لگی۔ پھر بولی، ''میں نے حساب لگایا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں ہسپتال میں میرے گھر والوں پر کوئی تین، چار لاکھ روپے لگے، پر میں نے نہیں دیے اور باجی عزت بھی بہت دی ڈاکٹروں نے۔‘‘

یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، ہاں ایک اپنی ذات میں مگن رہنے والی عام سی عورت کے منہ سے یہ سننا میرے لیے حیران کن تھا کیونکہ عموماً دیہات میں رہنے والے ایسے سادہ لوگ ووٹ صرف برادری کے نام پر دیتے ہیں، انہیں اس کے لیے سیاست یا حکمران سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔


صحت کارڈ کے حوالے سے بات کی جائے تو ایک نجی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ہیلتھ کارڈ سے مفت علاج کے لیے 794 سرکاری ونجی ہسپتالوں کو منتخب کیا گیا۔ 189سرکاری، 605 نجی ہسپتالوں سے علاج معالجہ کی مفت سہولت حاصل کی گئی، صوبے میں چار لاکھ 89 ہزارسے زائد افراد نے ہیلتھ کارڈ سے مفت ڈائیلسزکروائے۔

51 ہزار سے زائد افراد نے ہیلتھ کارڈ سے مفت کورونری انجیوگرافی کی سہولت حاصل کی، ہیلتھ کارڈ سے 44 ہزار سے زائد خواتین نے نارمل ڈلیوری، ایک لاکھ87 ہزار سے زائد نے سیزیرین کی سہولت لی۔


محکمہ صحت کے مطابق پنجاب میں 32 ہزار سے زائد افراد نے صحت سہولت کارڈ سےکیموتھراپی کی مفت سہولت لی۔ زبیر کی عمر 39 سال ہے، اس کا تعلق صوابی سے ہے، میٹرک تک تعلیم ہے۔ اس کے والد اے این پی کے کارکن تھے اور اب بھی اے این پی کے ہی ہم درد ہیں۔ زبیر سے اگر پوچھا جائے کہ الیکشن ہوئے تو ووٹ کس کو دو گے تو ایک لمحہ توقف کیے بغیر جواب دے گا کہ عمران خان کو۔

زبیر کہتا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے اس کے بھائی کا چھت سے گر کر بازو ٹوٹ گیا تھا۔ بڑے ہسپتال لے کر گئے، ڈیڑھ لاکھ کا ایسٹیمیٹ بنا، غریب آدمی کدھر سے دیتا۔ لیکن ادھر شناختی کارڈ دیا، صحت کارڈ پر سب کام مفت ہو گیا بلکہ ایک بندہ دس دفعہ پوچھنے آیا کہ کسی نے دوائی، ایکس رے یا کسی اور کام کے لیے پیسہ مانگا ہو تو بتاؤ؟ زبیر کے مطابق ایسا خیال تو ان کا کبھی کسی نے نہیں کیا۔


زبیر نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا، ''دوسری بات یہ کہ جب پہلے دیگر حکومتیں رہیں تو پولیس ہمیں بہت ذلیل کرتی تھی۔ یہ سمجھیں کہ ہم کُتے تھے ان کے لیے۔ پی ٹی آئی حکومت میں ان کا رویہ بدل گیا۔ اب پہلے سلام کرتے ہیں، پھر پوچھتے ہیں اگر کچھ پوچھنا ہو۔ ابھی زیادہ دن کی بات نہیں ہمارے بزرگ کا سامان اڈے سے اٹھا کر گھر تک پہنچایا۔ ہم نے تو ایسا پولیس کا رویہ نہیں دیکھا۔ غریب کو اور کیا چاہیے؟ اس کو صحت کی گارنٹی مل گئی، تھانے کچہری کا ڈر کم ہو گیا۔ کافی ہے نا، تو ووٹ تو عمران خان کا ہی ہے۔‘‘

پاکستان میں بسنے والے غریب کے لیے عزت نفس اس عیاشی کی طرح ہے، جو خواب ہی کی طرح ہوتی ہے۔ حیرانی ہوتی ہے اپوزیشن کو کہ خان ایک کال دیتا ہے اور سڑکیں لوگوں سے بھر جاتی ہیں، کیوں؟ پناہ گاہیں، بے سہارا، غریب اور لاچار کے لیے ان کے گھر ہی کی طرح کی جگہیں تھیں اور دسترخوان بھی، وہ لنگر، جس پر کہنے والوں نے عمران خان کو کشکول تھمانے تک کے طعنے دیے۔


کلیم اللہ، دیہاڑی کرتا ہے، روزانہ کا ہزار روپیہ ملتا ہے اسے۔ گرمی ہو یا سردی، موسم کی سختی اسے کام نہ کرنے سے روک نہیں سکتی۔ احساس کفالت پروگرام ان کے لیے بازو بنا۔ کلیم اللہ نے مجھے بتایا، ''وہ بے یقینی، جو دیہاڑی ملنے نہ ملنے کی صورت مجھے فاقوں کا خوف دلاتی تھی، اس مدد نے مجھے اس سے آزاد کیا اور دن بھر مزدوری کر کے یا مزدوری کا انتظار کر کے پیٹ کا ایندھن عمران خان کے لنگر خانے سے بھرنے لگا۔ آپ نہیں جانتے غریب کے لیے یہ سو روپے کی بچت کتنی بڑی بچت ہے، جس سے مجھے اپنی روٹی خریدنے پڑتی تھی۔ میرے لیے خان فرشتہ ہے، رحمت کا فرشتہ۔‘‘

ندیم احمد سرکاری ملازم ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ''بیس سال کی اس ملازمت میں تنخواہ اتنی نہیں ہوتی کہ ہم جیسے گھرانے اس مہنگائی میں اپنا گھر بنانے کا خواب بھی دیکھ سکیں۔ میرے اس ان دیکھے خواب کو عمران خان کی اپنا گھر اسکیم نے پورا کر دیا اور آج میں اپنی چھت کے نیچے ہوں۔ مراحل کافی سخت اور مشکل تھے، جو کہ اس اسکیم کی ضرورت بھی تھے لیکن آپ سوچیے کہ اس مہنگائی میں حکومت اس لیے آپ کی مدد کرے کہ آپ اپنی چھت حاصل کر سکیں۔ یہ پاکستان میں ہوا، مجھ پر عمران خان کا یہ عمر بھر کا احسان ہے۔‘‘


یہ صرف چند چہرے ہیں۔ آپ ہسپتالوں میں جائیں، ان لائن پلیٹ فارمز پر نوجوانوں سے بات کر کے دیکھیں، لنگر خانوں کے بند تالوں کو حسرت سے دیکھتے مزدوروں کی شکوہ کرتی آنکھیں پڑھیں یا پھر فٹ پاتھوں اور بینچوں پر سوئے بے سہارا جسموں کی تھکن کو جانچنے کی کوشش کریں۔ خان کے نام پر ان کے جسم میں دوڑنے والی لہر بتائے گی کہ یہ شہرت عمران خان نے ان غریبوں کی عزت نفس اور وقار میں اضافہ کر کے کمائی ہے۔ اسی لیے آج غریب کا ہاتھ دعا کے لیے خود بخود عمران خان کے لیے اٹھ جاتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔