اکثر بھارتی باشندے ذہنی صحت سے متعلق مشوروں پر کیوں بھروسہ نہیں کرتے

بہت سے بھارتی باشندے جو معاشرتی اصولوں کے موافق نہیں ہیں انہیں ذہنی علاج کے دوران بے عزتی کا احساس ہوتا ہے۔

اکثر بھارتی باشندے ذہنی صحت سے متعلق مشوروں پر کیوں بھروسہ نہیں کرتے
اکثر بھارتی باشندے ذہنی صحت سے متعلق مشوروں پر کیوں بھروسہ نہیں کرتے
user

Dw

بھارت میں ذہنی صحت کے بارے میں بیداری بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس صنعت میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ذہنی علاج میں مدد کے حصول کے دوران انہیں اپنے آپ کے بے اثر ہونے کا احساس ہوا ہے۔

ممبئی کی رہائشی ایک طالبہ نے ہم جنس پرستی کی وجہ سے گھر سے نکالے جانے کے بعد تھراپی کا رخ کیا۔ علینہ (فرضی نام) نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ اُن کی زندگی کا سب سے برا وقت تھا۔ وہ کہتی ہیں، ''میرے والد مجھ سے لاتعلق ہو گئے تھے۔ مجھے اپنا آپ قصور وار لگتا تھا اور مجھے لگتا تھا کہ میں اپنے خاندان کے لیے بے عزتی کا باعث ہو‌ں۔‘‘


پچیس سالہ علینہ کا کہنا تھا کہ جب وہ مدد کی تلاش میں تھیں تو انہیں اعتماد کی کمی اور بے یقینی کا سامنا تھا۔ علینہ نے بتایا کہ انکے تھراپسٹ کا کہنا تھا کہ ان کے والد ان کے لیے اچھا سوچتے ہیں اور انہیں اپنے والد سے معافی مانگنی چاہیے۔ وہ کہتی ہیں،'' اس پر مجھے اپنی جنسیت پر اور زیادہ شرمندگی ہوئی اور کچھ سیشنز کے بعد میں نے تھیریپسٹ کے پاس جانا ہی چھوڑ دیا۔‘‘

علینہ مزید کہتی ہیں،''میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ اب مجھے معاون کمیونٹی اور بہتر تھراپسٹ مل گیا ہے۔‘‘ علینہ نے مزید کہا کہ بہت سے معالج اور تھراپسٹ یہ اشتہار دیتے ہیں کہ وہ ہم جنس پرستوں کا بھی دوستانہ طریقے سے علاج کرتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کرتے ہیں۔ یہ لوگوں کی نفسیاتی صحت کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوتا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو روایتی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔


بھارت میں ہم جنس پرستو‌ں کی شادیوں پر بحث

بھارت میں ہم جنس پرستوں کی شادیوں پر اعلٰی عدالت میں بحث جاری ہے ایسے میں بھارت کی نفسیاتی سوسائٹی نے مساوی حقوق کے مقصد کی حمایت میں اضافہ کر دیا ہے۔ 2018 ء میں اس تنظیم نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ ،''ہم جنس پرستی عام جنسیت کی ہی ایک قسم ہے اور یہ کوئی بیماری نہیں ہے۔ اس تنظیم کا ماننا ہے کہ ہم جنس پرستوں کی کمیونٹی کو بھی مساوی حقوق ملنے چاہیں۔‘‘ تاہم بہت سے معالج اب بھی جنسیت کے بارے میں پرانے خیالات کے حامل ہیں۔

ماری والا ہیلتھ انیشی ایٹیو کے ڈائریکٹر، راج ماری والا کا کہنا ہے کہ،'' تاریخی طور پر نفسیاتی مضامین سماجی رویوں پر مبنی ہوتے ہیں اور علاج کو کسی عمل کو درست کرنے یا سزا دینے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں خواتین کو ہسٹیریا یا ہیجان کی بیماری لاحق ہوتی تھی۔ اسکی باقیات اب بھی موجود ہیں لیکن اس کے معالجین اس بیماری کی جڑ تک نہیں پہنچ سکے ہیں، اور ابھی بھی اس بارے میں موجود معلومات میں بہت سی چیزیں غیر واضح ہیں۔‘‘


نفسیاتی صحت سے متعلق آگاہی میں اضافہ

عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق، بھارت میں 56 ملین لوگ ڈپریشن اور 38 ملین ذہنی بے چینی کا شکار ہیں۔ نفسیاتی صحت سے متعلق آگاہی پھیلائی جا رہی ہے خاص طور پر بھارت کے شہروں میں۔ UnivDatos کی ایک رپورٹ کے مطابق نفسیاتی صحت کی صنعت میں 2022 ء سے 2028 ء کے دوران سالانہ 15 فیصد کی شرح سے ترقی متوقع ہے۔

30 سالہ سری رام نے بچے نہ پیدا کرنے کی وجوہات اپنے معالج کو بتائیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سری رام نے کہا،'' چند روز کے بعد جب اس حوالے سے پھر بات چھڑی تو میری معالج نے کہا کی میں بچے اس لیے پیدا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں خود غرض ہوں۔ مجھے اس وقت سمجھ نہیں آیا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ مجھے دوسرے معالج کے پاس جا کر ہی اس امر کا ادراک ہوا کہ میری پہلی معالج میرے لیے ٹھیک نہیں تھی۔ میری پہلی معالج نے میری فحش چیزیں دیکھنے کی عادت کو بھی نارمل قرار دے دیا تھا۔ میں اب کسی کو اُس کے پاس جانے کا مشورہ نہیں دونگا۔ وہ مجھے دیگر مریضوں کی کہانیاں سناتی تھی، جس کا مطلب ہے کہ وہ میری کہانی بھی دوسروں کو سناتی ہوگی۔‘‘


چنمایا مشن ہسپتال کے ایک ڈاکٹر، ہرینی پرساد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، کنوارہ رہنا یا بچے نہ ہونا، یہ ایسے انتخابات ہیں جن کا احترام ہر معالج کو کرنا چاہیے، یہ کسی بھی مریض کی زندگی کے باقی فیصلوں کی طرح ہیں۔ اگر ایک معالج اپنے تعصبات کی نگرانی اور نشاندہی نہیں کرے گا تو یہ تعصبات کام میں نظر آئیں گے۔

خطرناک ہدایات

میڈیا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ریتیکا نے بلوغت میں توجہ نہ ملنے کی وجہ سے ہائیپر ایکٹیویٹی ڈس آڈر کا ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔ نفسیاتی صحت کے کلینک سے مہنگے اور طویل ٹیسٹ کرانے کے بعد انہیں جو نتائج ملے اس پر کوئی بیماری نہیں لکھی تھی۔ بلکہ ان کو صرف بتایا گیا کہ وہ بے چینی اور ہلکے ڈپریشن کا شکار ہیں جن کے خلاف وہ پہلے سے ہی ادویات لے رہی تھیں۔


ریتیکا کا کہنا تھا،''میں نے اپنی پوری زندگی نیورو ڈائیورجینس کے ساتھ گزاری ہے، اور جب میری زندگی کا ہر پہلو متاثر ہو رہا تھا تو میں نے آخر کار اس کی تشخیص کی کوشش کی لیکن جب ماہر نفسیات کے پاس گئی تو اسکو کوئی عملی تجربہ نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ جوٹیسٹ کیے گئے وہ میرے لیے بہت تکلیف دہ ثابت ہوئے۔ اس کے نتائج میں یہ ثابت کیا گیا کہ میں باہمی رابطے اور تبادلہ خیال میں کمزور ہوں اور اس میں مجھے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ اس لیے مجھے دیرپا تعلقات بنانے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ میں اب بھی اسی شعبے سے منسلک ہوں، اور اپنے جیون ساتھی کے ساتھ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے رہ ہی ہوں۔ تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ رزلٹ کہاں سے آئے تھے۔ وہ اگر مجھ سے زیادہ بات کرتے تو میرے بارے میں مزید جان سکتے تھے۔ وہ سب کچھ صرف بے کار ہی نہیں بلکہ خطرناک بھی تھا۔‘‘

جب ریتیکا نے اس حقیقت پر سوال کیا کہ اے ڈی ایچ ڈی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، تو انہیں بتایا گیا کہ اسکا انہوں نے ٹیسٹ ہی نہیں کرایا۔ ریتیکا کا کہنا تھا کہ اس پورے عمل نے انہیں غصہ دلایا اور احساس دلایا جیسے کہ ان کی بات کو باطل یا غیر اہم سمجھا گیا ہو۔ اسکے بعد وہ کسی کے مشورے سے ایک اور معالج کے پاس گئیں جن کے ساتھ انکا تجربہ بہت اچھا رہا ، ریتیکا کا کہنا ہے کہ وہ صرف انہی پیشہ ور افراد کے پاس جاتی ہیں جن کی تجویز ان لوگوں نے دی ہو جن پر انہیں مکمل اعتماد ہو۔


انڈین مینٹل ہیلتھ کیئر ایکٹ 2017 ء مریضوں کو خدمات کی فراہمی میں کوتاہیوں کے بارے میں شکایت درج کرنے کا حق فراہم کرتا ہے۔ ماری والی ہیلتھ انیشی ایٹیو نے کیور ا‌ٓفرمیٹو کونسلنگ کورس کا انعقاد کیا ہے، جس کے ذریعے بھارت میں 500 نفسیاتی امراض کے معالجوں کو تربیت دی گئی ہے۔ کورس مکمل کرنے والے معالجوں کے نام ویب سائیٹ پر درج ہیں۔

ماری والا ہیلتھ انیشی ایٹیو کے ڈائریکٹر، راج ماری والا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم جنسپرستوں، مختلف ذات سے تعلق رکھنے والوں اور معذوروں کے لیے احساس ہمدردی رکھنا صرف ایک کورس تک محدود نہیں ہے، اس شعبے سے منسلک لوگوں کو اپنے آپ کو مستقل طور پر اور باقاعدگی سے اپ دیٹ کرتے رہنا چاہیے۔‘‘ پیشہ ور افراد کا کہنا ہے کہ جب بات خراب علاج کی ہو تو لوگوں کو اس کے خلاف کچھ کرنے کے لیے مدد لینا نہیں چھوڑنا چاہیے۔


پرساد کا ماننا ہے کہ کلائنٹس کو اس بات پر نظر ثانی کرنی چاہیے کہ وہ اپنے معالج کے پاس کیسا محسوس کرتے ہیں۔ ایک معالج ہر مریض کے لیے موزوں نہیں ہو سکتا۔ معالج سے اسکی اسناد کے بارے میں دریافت کریں، اسکے طریقہ علاج اور پالیسی کے بارے میں جانیں۔ سب سے ضروری یہ ہے کہ کلائنٹ کو محسوس ہو کہ اُسے عزت مل رہی ہے، اسکے انتخابات کا احترام کیا، اُسے سمجھا جائے اور بہت قابل عزت طریقے سے اُس سے بات کی جائے۔

گر آپ شدید جذباتی تناؤ یا خودکشی کے خیالات میں مبتلا ہیں تو پیشہ ورانہ مدد لینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ چاہے آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتے ہوں آپ مندرجہ زیل ویب سائیٹ سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں کہ ایسی مدد کہاں سے حاصل کی جائے: https://www.befrienders.org/.

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔