ایرانی وزیر خارجہ نے بھارت کا دورہ کیوں منسوخ کر دیا؟

نئی دہلی کے 'رائے سینا ڈائیلاگ' کے پروموشنل ویڈیو میں ایک ایرانی خاتون کے بال کاٹنے کا دو سیکنڈ کا فوٹیج شامل تھا۔ ایران نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا مجوزہ دورہ منسوخ کر دیا۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصیر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصیر آئی اے این ایس

user

Dw

بھارتی میڈیا میں شائع خبروں کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان تین اور چار مارچ کو نئی دہلی میں ہونے والے 'رائے سینا ڈائیلاگ' میں شرکت کے لیے بھارت آنے والے تھے لیکن دو سیکنڈ کے ایک ویڈیو کی وجہ سے اب انہوں نے یہ دورہ منسوخ کر دیا ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کا معروف تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاونڈیشن (او آر ایف) کے ساتھ مل کر ہر سال 'رائے سینا ڈائیلاگ' کا اہتمام کرتی ہے، جس میں دنیا بھر سے اہم سیاسی اور سماجی رہنماوں کے علاوہ دیگر شعبوں سے تعلقات رکھنے والی اہم شخصیات شرکت کرتی ہیں۔ اسے اسٹریٹیجک رائے سازی کے لحاظ سے کافی اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس برس یہ پروگرام دو سے چار مارچ کے درمیان ہونا ہے۔


اس پروگرام کے لیے تقریباً دو منٹ کا ایک پروموشنل ویڈیو جاری کیا گیا ہے، جس میں دنیا کو درپیش چیلنجز اور مختلف ملکوں کو درپیش مسائل کا ذکر ہے۔ اس میں ایک جگہ تقریبا دو سیکنڈ کا ایک ویڈیو ہے جس میں ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی تصویر اوپر ہے اور اس کے نیچے ایک ایرانی خاتون کی تصویر ہے جو اپنے بال کاٹ رہی ہیں۔

ایران ناراض کیوں؟

بھارتی اخبار انڈین ایکسپرس نے لکھا ہے کہ اس ویڈیو کلپ سے ناراض ہو کر ایران نے دہلی میں اپنے سفارت خانے کے ذریعہ او آر ایف اور بھارتی وزارت خارجہ سے رابطہ کیا اور مظاہرین کے ساتھ ایک ہی فریم میں صدر کی تصویر دکھانے پراعتراض کیا۔ انہوں نے ویڈیو کلپ کو ہٹانے کے لیے کہا لیکن رائے سینا ڈائیلاگ کے منتظمین نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔


اس فیصلے سے ناراض تہران حکومت نے منتظمین سے کہا کہ وزیر خارجہ امیر عبداللہیان رائے سینا ڈائیلاگ میں شامل نہیں ہوں گے۔ خیال رہے کہ ایران میں گزشتہ ستمبر میں ایک ایرانی خاتون مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی حراست میں موت کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ مظاہرین حجاب کے حوالے سے حکومت کے سخت قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران بعض مقامات پر خواتین نے بطور احتجاج اپنے بال کاٹ لیے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت نے ان مظاہروں پر اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

گزشتہ نومبر میں جرمنی اور نیدرلینڈ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیشن میں ایران میں انسانی حقوق کی مبنیہ خلاف ورزیوں کا پتہ لگانے کے لیے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ 25 ملکوں نے اس کے حق میں ووٹ دیے تھے، سات نے اس کی مخالفت کی تھی جب کہ 16ممالک ووٹنگ سے غیر حاضر رہے تھے اور بھارت بھی ان میں شامل تھا۔


ویڈیو میں کیا ہے؟

او آر ایف نے رائے سینا ڈائیلاگ کا جو پروموشنل ویڈیو جاری کیا ہے اس کا آغاز وزیر اعظم نریندر مودی کی ایک کلپ سے ہوتا ہے۔ یہ گزشتہ برس سمرقند میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ان کی ملاقات کی ہے، جس میں وہ کہتے ہیں،" یہ جنگ کا دور نہیں ہے۔" ویڈیو میں یوکرین کے صدر وولودومیر زیلنسکی، امریکی صدر جو بائیڈن اور بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے کلپ بھی ہیں۔

خیال رہے کہ یکم اور دو مارچ کو بھارت میں جی ٹوئنٹی ملکوں کے وزرائے خارجہ کی اہم میٹنگ ہوگی۔ رائے سینا ڈائیلاگ کا انعقاد اس کے فوراً بعد ہوگا۔ سمجھا جاتا ہے کہ کئی ملکوں کے وزرائے خارجہ اس میں شرکت کریں گے۔ جی ٹوئنٹی کے علاوہ بھی کئی ملکوں کے وزرائے خارجہ رائے سینا ڈائیلاگ میں شرکت کے لیے نئی دہلی آرہے ہیں۔


بھارت اور ایران کے باہمی تعلقات

ایران اور بھارت کے درمیان طویل سفارتی تعلقات میں اتار چڑھاوآتے رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں افغانستان کے حالات کے وجہ سے نئی دہلی اور تہران کے درمیان تعلقات نے اسٹریٹیجک صورت اختیار کرلی ہے۔ امریکہ کی سابقہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پابندی عائد کردینے کی دھمکیوں کی وجہ سے بھارت نے ایران سے تیل درآمد کرنا بند کردیا تھا اور وہ اب بھی اپنی سابقہ سطح تک نہیں پہنچ سکا ہے۔

بھارت اور ایران دونوں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن بھارت ایران میں چابہار بندرگاہ کی تعمیر کر رہا ہے جو افغانستان کو وسطی ایشیا سے جوڑے گا۔ گزشتہ برس جون میں پیغمبر اسلام کے متعلق بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما کے متنازع بیان، جس پرمتعدد مسلم ملکوں نے سخت برہمی کااظہار کیا تھا، کے بعد امیر عبداللہیان نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔


بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال سے ملاقات کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک اس بات سے متفق ہیں کہ" آفاقی مذاہب" اور"اسلامی مقدسات" کا احترام کرنے اور" تخریب آمیز بیانات سے گریزکرنے" ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔