بھارت: خواتین میں غیر محفوظ اسقاط حمل کے رجحان میں اضافہ کیوں؟

دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی کمی، راز داری کا فقدان اور بدنامی کا بہت زیادہ خوف، یہ وہ عوامل ہیں جو بھارتی خواتین کے غیر محفوظ اسقاط حمل کے رجحان میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس
علامتی فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

چترا )فرضی نام( کو اسقاط حمل کروانے کے لیے اپنے گھر سے 40 کلومیٹر سے بھی زیادہ مسافت طے کر کے گُڑگاؤں شہر جانا پڑا۔ اتنی دور جا کر اسقاط حمل کروانے کا فیصلہ اُس نے اس لیے کیا تاکہ اُس کے گھر والوں کو پتا نہ چل سکے۔ اس نے بتایا کہ مانع حمل ناکام ہو گیا مگر وہ بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتی۔ چترا کی عمر 20 سال ہے۔ اُس نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت میں کہا، ''کلینک میں ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کے دیگر ارکان نے مجھ سے بہت زیادہ پوچھ گچھ کی اور میرے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئے۔ میرا بوائے فرینڈ میرا ساتھ دینے کے لیے وہاں موجود تھا لیکن مجھے ڈر تھا کہ طبی عملہ مجھے اسقاط حمل کروانے کے لیے گھر والوں سے اجازت لینے پر مجبور کرے گا۔ میں ایسی آزمائش سے دوبارہ کبھی گزرنا نہیں چاہوں گی۔‘‘

بھارت میں 1971ء سے اسقاط حمل کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ گزشتہ سال 'میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی ‘ ایم ٹی پی ایکٹ میں ترمیم نے دیگر تبدیلیوں کے علاوہ خواتین کی محفوظ اور قانونی اسقاط حمل تک رسائی کو 20 سے 24 ہفتوں تک بڑھا دیا۔


اس میں رازداری کی ایک شق بھی شامل کی گئی، اور عورت کی ازدواجی حیثیت سے قطع نظر، حمل کو ختم کرنے کی وجہ کے طور پر مانع حمل کی ناکامی کو بھی شامل کیا گیا۔

عالمی ادارہ صحت، ڈبلیو ایچ او کی تکنیکی مشاورتی کمیٹی کے ایک کارکن ڈاکٹر نوزر شہریار مذکورہ ایکٹ میں ترامیم کے حوالے سے کہتے ہیں، ''اگلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم خواتین کے مزید حقوق پر مبنی نقطہ نظر کی وکالت کرتے ہوئے انہیں وسیع تر اختیارات اور اپنے لیے متبادل انتخاب کا موقع فراہم کریں۔‘‘


غیر محفوظ اسقاط عمل خواتین کے لیے مہلک

اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (UNFPA) کی اسٹیٹ آف دی ورلڈ پاپولیشن رپورٹ 2022ء کے مطابق بھارت میں قریب 67 فیصد اسقاط حمل غیر محفوظ طریقوں سے ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ غیر محفوظ اسقاط حمل کی وجہ سے روزانہ آٹھ خواتین کی موت ہوتی ہے۔ یہ وجہ جنوبی ایشیائی ممالک میں زچگی کے دوران اموات کی وجوہات میں سے تیسری سب سے بڑی اور عام وجہ ہے۔

''سیئنگ دی ان سیئنگ‘‘ یعنی '' ان دیکھے کو دیکھنا‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بِنا خواہش حمل کیسز کو نظرانداز کیے جانے سے پیدا ہونے والے بحران کے خلاف مناسب ایکشن نہ لیے جانے کے نتائج درج ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں ناخواہش کردہ حمل کے ہر آٹھ کیسز میں سے ایک بھارت میں رونما ہوتا ہے۔


اسقاط حمل کو صرف اُس وقت محفوظ سمجھا جا سکتا ہے جب وہ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے تجویز کردہ طریقہ کار کے تحت عمل میں لایا جائے۔

اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (UNFPA) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے 'میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی ‘ ایم ٹی پی ایکٹ میں ترمیم حوصلہ افزا ہے تاہم غیر محفوظ اسقاط حمل اور زچگی کے دوران اموات کو روکنے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔


'اسقاط حمل کو تولیدی ضرورت کے طور پر تسلیم کریں‘

ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ جن ممالک میں اسقاط حمل کے قوانین زیادہ سخت ہیں وہاں دوران زچگی اموات کی شرح نرم قوانین والے ممالک کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے۔ اعداد و شمار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اسقاط حمل کے سخت اور زیادہ پابندیوں والے ممالک میں ہر ایک لاکھ پیدائش کے عمل کے دوران 223 خواتین کی اموات ہوتی ہیں جبکہ اسقاط حمل کے کم یا نرم قوانین والے ممالک میں ایک لاکھ زندہ پیدائش میں زچگی کی 77 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔

اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (UNFPA) کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 15 تا 19 سال کی درمیانی عمر کی لڑکیوں کو اسقاط حمل کی پیچیدگیوں کے سبب موت کے سب سے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔


ناخواہش کردہ حمل

خواہش کے بغیر حمل ٹھہرنے کے کیسز زیادہ تر کم آمدنی، معاشرے کے معاشی طور پر کمزور طبقے اور کم تعلیم یافتہ گھرانوں میں دیکھنے میں آتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے، ''اگر لڑکیوں کو اسکول میں جنسیت کی جامع تعلیم نہیں دی جاتی ہے، تو اُن کے پاس درست معلومات کی کمی ہو سکتی ہے۔ ایسی لڑکیوں کے پاس ان کی اپنی زندگی میں بہت کم مواقع اور انتخاب یا فیصلے کے امکانات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر تعلیم مکمل کیے بغیر بچے کو جنم دینے سے انکار کا اُس کے پاس کوئی حق نہیں ہوتا۔‘‘

تعزیرات ہند کی دفعہ 312 کے مطابق، ''اسقاط حمل کا سبب بننا‘‘ جرم سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ MTP ایکٹ کو اسقاط حمل فراہم کرنے والے ڈاکٹروں کی حفاظت کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔