ہندوستان: ’می ٹو‘ مہم میں گھریلو خادمائیں نظر انداز

ہندوستان میں ’می ٹو‘ مہم مسلسل شدت اختیار کرتی جا رہی ہے اور جونيئر وزیر خارجہ کو اپنے عہدہ سے استعفیٰ بھی دینا پڑا تاہم لاکھوں خادماؤں کے استحصال کی طرف اب بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی۔

ہندوستان: ’می ٹو‘ مہم میں گھریلو خادمائیں نظر انداز
ہندوستان: ’می ٹو‘ مہم میں گھریلو خادمائیں نظر انداز
user

ڈی. ڈبلیو

بالی ووڈ سے’می ٹو‘ کی جو مہم شروع ہوئی تھی، اس میں ہر روز کوئی نہ کوئی نیا نام سامنے آ رہا ہے۔ روز بروز نئے نئے انکشافات و الزامات سامنے آ رہے ہيں، جس سے دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کے جنسی استحصال کی بھیانک صورتحال سامنے آ رہی ہے۔
متعدد خواتین صحافیوں نے سابق صحافی اور ہندوستان کے جونيئر وزیر خارجہ ایم جے اکبر پر جنسی استحصال کے الزامات عائد کيے ہيں۔ ايم جے اکبر نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور الزام عائد کرنے والی ایک خاتون کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ بھی دائر کرا رکھا ہے لیکن ان پر یکے بعد دیگرے بیس خواتین نے جنسی استحصال کے الزامات عائد کر ديے۔ بعد ازاں بروز بدھ بالآخر انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑ گيا۔
حالانکہ ’می ٹو‘ مہم شروع ہونے کے بعد فلمی دنیا، کارپوریٹ سیکٹر، صحافت اور اسپورٹس وغیرہ جيسے متعدد شعبوں میں خواتین کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے معاملات میڈیا میں توجہ کا مرکز بن رہے ہیں لیکن دوسری طرف بھارت کے افلاس کا شکار دیہی علاقوں سے روزی روٹی کی تلاش میں نقل مکانی کر کے بڑے شہروں میں آنے والی اور گھروں میں خادماؤں کے طور پر کام کرنے والی لاکھوں خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ان کے جنسی استحصال کے خلاف کوئی موثر آواز اب تک بلند نہیں ہو رہی ہے۔
بھارت میں گو کہ گھر سنبھالنے کی ذمہ داری روایتی طور پر خواتین کے حصے میں آتی ہے لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور بھارتی مڈل کلاس کے لوگوں کی آمدنی بڑھی ہے، اس کے ساتھ ہی گھر سنبھالنے کے ليے خادماؤں کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے۔
دہلی لیبر آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق قومی دارالحکومت میں گھریلو کام کاج کرنے والوں کی تعداد میں ایک دہائی کے دوران ایک سو بیس گنا اضافہ ہوا ہے۔ 1991میں یہ تعدادسات لاکھ چالیس ہزار تھی جو سن 2001 میں بڑھ کر سولہ لاکھ ساٹھ ہزار ہوگئی ہے۔ بھارت میں گھریلو کام کرنے والوں کی تعداد مجموعی طور پر پانچ کروڑ سے زیادہ ہے، جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔
گھریلو خادماؤں میں بیشتر یا تو بالکل ناخواندہ ہیں یا صرف اپنا نام لکھ سکتی ہیں۔ اپنے ساتھ ہونے والے برے سلوک، گالی گلوج، چھیڑ خانی، جنسی استحصال وغیرہ کے سلسلے میں انہیں کسی قانون کا علم نہیں۔ وہ جنسی ہراسانی کے معاملے پر کچھ بولنے سے گھبراتی ہیں کہ کہیں انہیں ملازمت سے ہاتھ دھونا نہ پڑ جائے۔ نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق گھریلو خادماؤں کے خلاف زیادتی اور استحصال کے معاملات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

حکومت نے گو کہ گھریلو خادماؤں کے حقوق کے تحفظ کے ليے ’ڈومیسٹک ورکرز ویلفيئر اینڈ سوشل سیکورٹی‘ کے نام سے ایک بل تیار کیا ہے، جس میں ضلعی، صوبائی او مرکزی سطح پر ایک باقاعدہ بورڈ بنا کر گھریلو ملازمين کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بات کہی گئی ہے لیکن یہ بل کئی برسوں سے التواء کا شکار ہے۔
گھریلو خادماؤں کے حقوق کے ليے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم شکتی واہنی سے وابستہ رشی کانت نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بل کی منظوری میں ہونے والی تاخیر کو حکومت کی لاپرواہی قرار دیتے ہوئے کہا، ’’میں سمجھ نہیں پا رہا کہ بل کو منظور کرانے میں اتنی دیر کیوں ہو رہی ہے۔ جنسی استحصال کے معاملات روزانہ سامنے آ رہے ہیں اور قانون نہ ہونے کی وجہ سے مجرمان کے خلاف کارروائی نہیں ہو پا رہی۔ مرکزی حکومت نے اس بل کی کابینہ سے منظوری تک نہیں لی۔ کوئی قانون نہ لا کر حکومت غالباً یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہم تمہیں رکھیں گے، استعمال کریں گے اور حکومت آنکھیں موندے رہے گی۔‘‘ رشی کانت کا مزید کہنا تھا، ’’گھروں میں کام کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ اگر ان کے ساتھ بدسلوکی ہو رہی ہے یا جنسی استحصال ہو رہا ہے تو اس کے بارے میں وہ کہاں شکایت کریں۔‘‘
بھارت کی وزارت محنت کا کہنا ہے کہ اس نے اس زیر التواء بل کے سلسلے میں متعلقہ فریقین سے مشورے طلب کيے ہیں اور اس بل کو جلد ہی منظور کرانے کی کوشش کی جائے گی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت نے گھریلو کام کرنے والوں سے متعلق بین الاقوامی مزدور تنظیم (آئی ایل او) کے کنونشن پر گو کہ دستخط کر ديے ہیں تاہم اب تک اس کی توثیق نہیں کی ہو سکی ہے۔ دوسری طرف بھارت میں صرف دو ایسے قوانین ہیں، جو گھریلو خادماؤں کو ’مزدور ‘ کا درجہ دیتے ہیں۔ پہلا ’غیر منظم مزدور سماجی تحفظ قانون 2008‘ اور دوسرا ’کام کے مقامات پر خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی روک تھام کا قانون‘ ہے۔ لیکن ان دونوں میں گھریلو خادماؤں کے حقوق کے سلسلے میں واضح طور پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */