مشرق وسطیٰ کے ڈاکٹروں میں ہجرت کا بڑھتا رجحان، وجہ آخر کیا؟

عالمی وبا کے آغاز سے ہسپتالوں کے عملے پر تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اسی تشدد کو اب مشرق وسطیٰ میں ڈاکٹروں کا اپنے آبائی ممالک چھوڑنےکا ایک بڑا سبب گردانا جا رہا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے ڈاکٹروں میں ہجرت کا بڑھتا رجحان، وجہ آخر کیا؟
مشرق وسطیٰ کے ڈاکٹروں میں ہجرت کا بڑھتا رجحان، وجہ آخر کیا؟
user

Dw

یہ گزشتہ برس گرمیوں کی بات ہے جب وسطی مصر میں ایک شہری نے ایک ہسپتال کے کچھ کارکنان پر چھری سے وار کیا تھا۔ اسی طرح کے ایک اور واقعے میں مصر ہی میں نہر سوئز کے قریب واقع ایک ہسپتال میں ایک شخص نے اپنی حاملہ بیوی کا علاج کرنے والی گائناکالوجسٹ کو پیٹنے کی کوشش کی تھی۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اس جوڑے کو اس ڈاکٹر کی جانب سے بچے کی ولادت کی ممکنہ تاریخ سے اختلاف تھا۔

یہ قصے ڈاکٹروں سمیت ہسپتالوں کے دیگر عملے پر تشدد کے ان بے شمار واقعات میں سے صرف دو ہیں، جن میں کووڈ انیس کی وبا کے بعد سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اور اب انہیں مشرق وسطیٰ میں ڈاکٹروں کا اپنی آبائی ممالک چھوڑنے کے بڑھتے رجحان کا ایک بڑا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔
اس خطے میں صحت کے شعبے سے متعلقہ عملے کے متعدد سروے کیے گئے ہیں جن میں 67 سے 80 فیصد ڈاکٹروں اور نرسوں نے کام کے دوران جسمانی یا زبانی تشدد کا سامنا کرنے کی شکایت کی ہے۔


کووڈ انیس ایک 'ٹپنگ پوائنٹ'

پچھلے سال انٹرنیشنل کونسل آف نرسز کے تحت کیے گئے ایک سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کووڈ انیس کے بعد سے ان واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور اس کے قرب میں واقع ممالک میں صحت کے حکام اس حوالے سے کورونا وائرس کو "ٹپنگ پوائنٹ" گردانتے ہیں جس سے مراد وہ اہم لمحہ ہے جب ایک بڑی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ ان حکام کے مطابق کووڈ انیس کے بعد سے ڈاکٹروں پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات انہیں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

مصر میں ہزاروں ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ایجپشن میڈیکل سنڈیکیٹ نے بھی حال میں کہا ہے کہ پچھلے سات سال کی عرصے میں پبلک سیکٹر سے مستعفی ہونے والے ڈاکٹروں کی تعداد 2022ء میں سب سے زیادہ تھی۔ مصری میڈیکل سنڈیکیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس 4,261 ڈاکٹروں نے استعفے دینے کے ساتھ ساتھ ایسے سرٹیفکیٹس کے لیے عرضیاں دیں جن کی بنا پر وہ بیروں ملک کام کر سکیں گے۔


تیونس کی مزدور تنظیموں کے مطابق بھی 2022ء میں تقریباﹰ 2,700 ڈاکٹروں نے ملک چھوڑا جبکہ ایسے ڈاکٹروں کی تعداد 2018 میں صرف 800 تھی۔ اسی طرح تیونس میں کم عمر ڈاکٹروں کے سرویز میں تقریباﹰ 40 فیصد جواب دہندگان نے کہا ہے کہ وہ بیرون ملک منتقلی پر غور کر رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ڈاکٹروں میں بڑھتا ہوا یہ رجحان صرف مصر یا تیونس تک ہی محدود نہیں۔ ایسی رپورٹس عراق، مراکش، اردن، ایران اور کویت سے بھی آتی رہتی ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے ڈاکٹر ہجرت کیوں کر رہے ہیں؟

تیونس کے ڈاکٹر احمد الغریری کا ماننا ہے مشرق وسطیٰ میں ڈاکٹروں کا اپنے آبائی ممالک چھوڑنے کی ایک بڑی وجہ ان پر مریضوں اور ان کے رشتے داروں کی جانب سے کیا جانے والا تشدد ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ خراب حالات کی وجہ سے مریضوں کو مستقل پریشانی کا سامنا رہتا ہے اور اسی وجہ سے ان کی طرف سے زبانی تشدد بہت عام بات ہے۔


انہوں نے مزید کہا، ’’یہ تشدد کئی ڈاکٹروں کا ملک چھوڑنے کے ارادہ کی وجہ بنتا ہے۔ اگر مجھے آج موقعہ ملے تو میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے (یہ ملک) چھوڑ دوں گا۔‘‘ ڈاکٹر احمد الغریری نے اس بات کی بھی نشاندہی کی ڈاکٹروں میں بیرون ملک منتقلی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے تشدد کے علاوہ بھی کئی اسباب ہیں اور بنیادی مسئلہ موجودہ نظام صحت ہے۔

ڈاکٹروں اور ہیلتھ کیئر ورکرز پر تشدد سے حاصل کیا ہوتا ہے؟

تیونس ہی کی ڈاکٹر عمیمہ الحسانی اس تشدد کو نہ ختم ہونے والا ایک ظالمانہ سلسلہ قرار دیتی ہیں۔ ان کے خیال میں ڈاکٹروں پر تشدد اور ان کے ملک چھوڑنے کی اہم وجوہات ایک ہی ہیں۔ وہ ان وجوہات میں وسائل، آلات و دیگر سامان اور عملے کی کمی کو شمار کرتی ہیں۔


ان کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں مریضوں کو ’’اکثر خوفناک حالات‘‘ کا سامنا رہتا ہے، خصوصاﹰ ایمرجنسی کیسز میں اور یہ تمام عناصر اجتماعی طور پر ڈاکٹروں پر تشدد کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہتر تنخواہ، معیار زندگی اور کام کے ماحول کے حصول کو بھی ڈاکٹروں کے ہجرت کرنے کی اہم وجوہات قرار دیتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری اور تنخواہوں میں اضافہ ڈاکٹروں اور نرسوں پر تشدد کے سلسلے کے خاتمے کی طرف پہلا اہم قدم ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔