اسی کی جان لے لی جس نے جان لیوا حرکت سے روکنے کی کوشش کی! ذمہ دار کون؟

حال ہی میں کراچی میں جزلان نامی نوجوان کو قتل کر دیا گیا۔ ایسے واقعات پر بہت سے سوال ابھرتے ہیں، جن میں سے پہلا اور سب سے ضروری سوال یہ ہے کہ کیا ہم بحثیت قوم ایسی خبروں کے اتنے عادی ہوگئے ہیں؟

ذمہ دار کون؟
ذمہ دار کون؟
user

Dw

مئی 24 کی رات کو کراچی میں ایک معمولی تکرار پر 18 برس کے نوجوان جزلان کا قتل کر دیا گیا۔ جزلان کے دادا جنہوں نے اپنے بیٹے کی وفات کے بعد پوتے کی خود کفالت کی تھی آج ایک اور غم کا پہاڑ ٹوٹنے پر سوال کر رہے ہیں کہ ایک باضمیر باشعور انسان تو غلطی سے کسی بلی کے بچے کو روند دے تو اسے نیند نہیں آتی تو کسی کی جوان اولاد کی جان لینا اتنا آسان کیسے ہو گیا؟

اس بھیانک رات جب جزلان اپنے دوستوں کے ہمراہ روانہ ہوا تو موٹر سائیکل سوار ریس لگاتے ہوئے اس کے سامنے آ گئے۔ ایسی لاپرواہی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے، یہ تنبیہ کرنے پر بحث چھڑ گئی اور وہ موٹر سائیکل سوار اس قدر غصے میں آ گئے کہ فوراً فون کرکے اپنے بڑے بھائی اور دیگر دوستوں کو بلا لیا۔ یہ سب نوجوان لڑکے اسلحہ ساتھ لائے تھے اور فائرنگ کرکے اس ہی کی جان لے لی جس نے جان لیوا حرکت سے روکنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ آئے دن ہمیں ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔


ایسے دل دہلا دینے والے واقعات پر بہت سے سوال ابھرتے ہیں، جن میں سے پہلا اور سب سے ضروری سوال یہ ہے کہ کیا ہم بحثیت قوم ایسی خبروں کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ اب سوال بھی نہیں کرتے؟ کچھ عرصہ سوشل میڈیا پر جسٹس فار جزلان کا ہیش ٹیگ دیکھنے کو ملتا ہے اور پھر سب پہلے جیسا ہو جاتا ہے۔

کچھ ماہ قبل ہی سیالکوٹ میں ایک بے گناہ کو قتل کیا گیا تھا؟ کیا ہمیں یاد ہے؟ کیا ہم نے کوئی اقدامات کیے ہیں کہ آئندہ ایسا کچھ نہ ہو؟ اقدامات تو ہم نے تب بھی نہیں کیے تھے، جب سن 2013 میں جوزف کالونی کو نذر آتش کیا گیا تھا۔ جب شاہ رخ جتوئی نے خدیجہ پر چاقو سے حملہ کیا تھا، جب آئے دن قتل و غارت، جائیداد کے تنازعے اور کبھی معمولی بحث پر ایسے سانحے ہوتے رہے؟


یہ شدت پسند رویہ ہماری نئی نسل کو تباہ کر رہا ہے۔ جب جزلان جیسے نوجوان پلک جھپکنے پر موت کے گھاٹ اتار دیے جائیں تو سمجھ جائیں کہ آگ گھر تک آن پہنچی ہے اور اب اگلا سوال کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ یہ سب حالات دیکھتے ہوئے ہم تربیت میں مزید محتاط ہو رہے ہیں یا دولت کے نشے کو ہی معیار بنا کر چل رہے ہیں۔ ان نوجوان کے پاس اسلحہ کہاں سے آیا؟ اتنا اعتماد کیسے آیا کہ وہ راہ چلتے فائرنگ کرکے بھی شاید بچ نکلیں گے؟ کیا وہ سمجھتے تھے کہ شاید کیس کی پیروی کرنے والے اتنے طاقت ور نہ ہوں جتنے غالباً ان کے اپنے خاندان والے ہیں؟ کہیں ان کے گھر میں غصے دکھانا، چیخنا چلانا اور لڑائی جھگڑا کرنا مردانگی کے مترادف تو نہیں؟

اگلے سوال کی طرف چلیں تو کیا پورا معاشرہ بھی کوئی کردار ادا کرتا ہے؟ جیسے کہ ہمارا میڈیا۔ بالی وڈ سے ہالی وڈ تک لڑائی مارکٹائی، قتل و غارت اور بدمعاشی کو بدقسمتی سے کسی تمغے کی طرح اہم کرداروں کی زینت بنایا جاتا ہے اور خاص کر اسلحے کا استعمال تو کس خوبی کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ نت نئے گرافک سے کتنی گاڑیاں ہوا میں اڑ رہی ہیں اور جدید ترین اسلحے کا استعمال شاید فلم کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہ ممکن ہے کہ فلم کی کہانی کے ڈراپ سین تک زیادہ قتل کرنے والے کردار کا انجام برا دیکھا دیں مگر شائقین کے دل و دماغ پر یہ کردار بہرحال اثر ضرور چھوڑ چکا ہوتا ہے۔ اصلاحی پہلو پر بنائی گئی فلمیں زیادہ تر بورنگ قرار دے دی جاتی ہیں اور کاروبار ہمیشہ مار دھاڑ کی فلمیں ہی کرتی ہیں۔


فلموں کے ساتھ ساتھ ایک اور طرز جس نے پچھلی دہائی میں خوب زور پکڑا ہے وہ ہے ویڈیو گیمز۔ کس عمر کے لیے کونسا گیم مناسب ہے اکثر اوقات والدین نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ بظاہر بے ضرر دکھائی دینے والی تفریح بھی کئی جانیں ہڑپ کر چکی ہے۔

بلووہیل چیلنج تو باقاعدہ خودکشی پر اکسانے اور دوسروں کو شامل کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ ٹک ٹاک بناتے بناتے بھی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک یہ گیمز صرف ٹی وی کے ساتھ پلے اسٹیشن وغیرہ لگا کر کھیلی جاتی تھیں اب معاملہ بے حد آسان اور والدین کی نظروں سے اوجھل ہے اور ہر کوئی باآسانی سمارٹ فون پر کھیل سکتا ہے۔ ان سے حفاظت کے طریقے ضرور ہیں اگر والدین اپنی نگرانی میں صرف عمر کے مطابق انہیں استعمال کرنے کی اجازت دیں مگر اس کے باوجود سرعام سڑک پر نو عمر لڑکوں کی فائرنگ سے جزلان قتل ہو جائے تو کہیں تو لاپرواہی ہے جو گیمز سے اسلحے تک کا تفریحاﹰ استعمال ممکن ہو رہا ہے اور انسانی جان سستی سے سستی ہوتی چلی جارہی ہے۔


ہم سب جانتے ہیں، انصاف کا ایسا نظام قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری، کہ جس میں کوئی قانون سے بالاتر نہ ہو، چاہے وہ اقتدار میں ہی کیوں نہ ہو؟ سستا اور فوری انصاف جو مجرم کو ایسے انجام تک پہنچائے جو باعث عبرت ثابت ہو۔ اسلحے سے متعلق سخت قوانين کتنے ضروری ہیں؟ اس کی مثال تو امریکہ جیسی سپر پاور میں ہونے والے فائرنگ کے سینکڑوں ہولناک واقعات ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ ہمارا انفرادی احتساب بہت ضروری ہے۔ گھر کا ماحول کس طرح کا ہے؟ غصہ، اونچی آواز اور پیسہ کیا طاقت کونشہ بنا رہا ہے يا اسے کچھ منفی سمجھا جا رہا ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی توجہ مرکوز کریں۔ معلومات کی آسان فراہمی سے والدین کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔ بدقسمتی سے آج کل سارا خاندان تفریح کے الگ الگ شوق رکھتا ہے اور مل کر بیھٹنا، کتب پر زیر حاصل بحث کرنا یا کم از کم اکھٹے بیٹھ کر ٹی وی ڈرامہ ہی دیکھنا معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ جب گھر کے افراد کو یہ ہی معلوم نہ ہو کہ دوسرا کونسی ایپ، گیم یا فلم میں مگن ہے تو اخلاقی اور تربیتی پہلو پر کیسے نظر رکھی جاسکتی ہے؟ یہ سمجھنا اور نئی نسل کو سمجھانا ہمارا فرض ہے کہ مضبوط وہ نہیں جو ہر چھوٹی بڑی بات پر تیش میں آجائے اور اسلحے کے استعمال تک جا پہنچے۔ ایسا فوری اور احمقانہ رد عمل درحقیقت کمزوری کی نشانی ہے۔ جذباتی طور پر مضبوط انسان برداشت اور سلیقے جیسے مشکل کام کرتا ہے۔ جہالت اور بدمعاشی کو بڑھاوا دینے کو ہر قدم پر روکنا ہو گا چاہے وہ میڈیا ہو، احباب کی محفل يا گھر کی گفتگو۔ اسلحے کی نمائش، جارحانہ آن لائن گیمز، مار دھاڑ سے بھرپور فلمیں اور بڑوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہماری نوجوان نسل کو تباہ کر سکتا ہے۔ اگر ہم نے انفرادی ذمہ داری کو قبول نہ کیا تو کہیں ہمیں ہوش آنے تک مزید جزلان اپنوں سے جدا نہ ہو جائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔