پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کب آئے گی؟

مسلم لیگ ن میں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کو مشاورت کے بغیر پارٹی کی تیسری اہم ترین پوزیشن دیے جانے پر ملک بھر میں اس سوال پر پھر بحث شروع ہو گئی ہے کہ جمہوریت کی جماعتوں کے اندر جمہوریت کب آئے گی؟

پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کب آئے گی؟
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کب آئے گی؟
user

Dw

سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف کی پارٹی میں ان کے اور شہباز شریف کے بعد تیسرا اہم ترین عہدہ بھی اب شریف فیملی کے پاس ہے۔ اب مریم نواز پارٹی کی سینیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر کے طور پر کام کریں گی اور پارٹی کی تنظیم نو کے حوالے سے بھی وہ تمام اختیارات کی مالک ہوں گی۔

موروثی سیاست

اس سے پہلے، حمزہشہباز شریف، اسحاق ڈار اور عابد شیر علی سمیت شریف فیملی کے کئی افراد پارٹی عہدوں اور حکومتی مناصب پر فائز ہیں۔ پاکستان میں موروثی سیاست کے مناظر کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، بلاول بھٹو، آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ عذرا پیچوہو کے نام پارٹی پر خاندانی گرفت کو ظاہر کرتے ہیں۔


پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار طاہر ملک نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے، جو مثالی سیاسی جماعت کی تعریف پر پوری اترتی ہو۔ ان کے بقول پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر شخصی اثرات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کئی پارٹیاں اپنے لیڈروں کے نام سے ہی پہچانی جاتی ہیں جیسے مسلم لیگ نواز کا نام ہی اس کے لیڈر کے نام پر ہے، ''پاکستان بننے کے بعد ملک میں سیاسی ماحول نہیں تھا پینتیس سال آمریت رہی اور بقیہ دور میں کبھی ہائبرڈ اور کبھی چیف ایگزیکٹو کا سسٹم چلا۔ اس طرح سیاسی کلچر فروغ نہ پا سکا پاکستان میں ریاستی ڈھانچے نے سیاسی قوتوں کو سہارا دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ سیاسی قوتوں کی کمزوریوں کو مواقع بنایا جاتا رہا۔ اس طرح سرکاری ملازم ہی ملک پر زیادہ تر غالب رہے۔‘‘

تنظیم نو کی ضرورت

طاہر ملک بتاتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو تنظیم نو کی ضرورت ہی نہیں ہے، ''جب ایک سیاسی جماعت کا لیڈر طاقتور حلقوں سے ڈیل کر کے اقتدار میں آتا ہے تو اسے اپنی پارٹی گراس روٹ لیول پر منظم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ ان کے بقول ہمارا سیاسی نظام ووٹ کی طاقت سے نہیں چلتا اس کو کچھ اور لوگ چلاتے ہیں۔وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر یہاں انتخابات منصفانہ ہوں تو سیاسی جماعتیں اپنی پارٹی کی تنظیم نو کرنے اور مشاورت سے پارٹی فیصلے کرنے کی طرف آ سکتی ہیں،''میرے خیال میں ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے بھی زیادہ ذمہ داری سیاسی جماعتوں کے کندھوں پر ہے وہی اگر مکالمے کی طرف آئیں، اختلافی آوازوں کو برداشت کریں، کارکنوں کو ان کا جائز مقام دیں اور اپنے ووٹروں کے مسائل کے حل کے لیے مخلصانہ طرز عمل اپنائیں تو ملک میں جمہوریت جڑ پکڑ سکتی ہے۔ ‘‘


موروثی سیاست کا دفاع نہیں کیا جا سکتا

نامور صحافی مرتضی سولنگی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طویل آمریت کی وجہ سے ملک میں سیاسی کلچر فروغ نہیں پا سکا۔ ان کے بقول کچھ خاندانوں نے آمریت کے خلاف مزاحمت کی انہیں عوامی پذیرائی بھی ملی، ''لیکن اس سب کے باوجود موروثی سیاست کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ان کے مطابق پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں صرف ایک حد تک کارکنوں کو بات کرنے کی اجازت ہے وہ تجاویز بھی دے سکتے ہیں لیکن حتمی فیصلہ خاندانی قیادت ہی کرتی ہے، ''ہمارے ہاں پاکستان تحریک انصاف اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے نعرے کے ساتھ آئی تھی، لیکن شاہ محمود قریشی کو بھی ملتان میں اپنی بیٹی کے سوا کوئی امیدوار نہیں ملا۔ کچھ اس سے ملتی جلتی صورتحال پرویز خٹک اور اسد قیصر کے خاندانوں میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔‘‘

مرتضی سولنگی کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں بہتری کے لیے ضروری ہے کہ عوام سیاسی جماعتوں کے غیر جمہوری رویوں کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتے رہیں۔


طلبہ یونینز سیاست کی نرسری

سینیئر صحافی عبداللہ طارق سہیل کہتے ہیں کہ پاکستانکی سیاسی تاریخ مارشل لا، سیمی مارشل لا اور اداروں کی محتاج سویلین حکومت کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے، ''ملک میں جب بھی جمہوریت مستحکم ہونے لگتی ہے مداخلت ہو جاتی۔ طلبہ یونینز سیاست کی نرسری تھی، جہاں سے قائدانہ صلاحیتوں والے نوجوان سیاسی جماعتوں کو میسر آتے تھے لیکن اس نرسری کو ختم کرکے گملے میں قیادت پروان چڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔‘‘ ان کے خیال میں ٖصرف جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے، جس میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں۔ باقی جماعتوں میں انتخابات کے نام پر مینجمنٹ کی جاتی ہے‘‘

عبداللہ طارق سہیل سمجھتے ہیں کہ اگر بیس سال تک بغیر کسی مداخلت کے جمہوری نظام کو چلنے دیا جائے تو پھر ملک کے جمہوری کلچر میں بہتری آ سکتی ہے، ''جب تک ملک میں تعلیم عام نہیں ہوتی، لوگوں کو شعور نہیں ملتا اور معاشرتی سطح پر لوگ اپنے حقوق سے آگاہ نہیں ہوتے جمہوری نظام کی بہتری کی توقع کرنا مناسب نہیں ہو گا۔‘‘


اے این پی، جے یو آئی ایف اور ق لیگ

مسلم لیگ ق میں چوہدری ظہور الہی کے بعد چوہدری شجاعت حسین، چوہدری پرویز الہی، چوہدری مونس الہی، عمران مسعود، وجاہت حسین اور شفاعت حسین وغیرہ پارٹی پر چوہدری خاندان کی گہری چھاپ کی عکاسی کر رہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی میں ولی خان اور بیگم نسیم ولی خان کے بعد اسفند یار ولی، ایمل ولی خان، غلام احمد بلور اور ثمر بلور وغیرہ بھی بائیں بازو کی اس جماعت پر خاندانی اثرات کو ظاہر کرتے ہیں۔

جمیعت علمائے اسلام (ف) جیسی مذہبی جماعت بھی خاندانی اثرات سے مبرا نہیں۔ اس جماعت میں مولانا مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن، مولانا عطا الرحمن، حاجی غلام علی، اور اسعد محمود ایک خاندان کی شناخت لیے ہوئے ہیں۔


اہم عہدے خاندان والوں کے لیے

شخصی اور خاندانی اثرات والی جماعتوں میں اقتدار کے دنوں میں اہم عہدے خاندان کے افراد کو مل جاتے ہیں اور حزب اختلاف کی صورت میں بھی قائد حزب اختلاف سمیت اہم عہدوں پر اور اہم کمیٹیوں میں مخصوص خاندان قابض رہتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے رولز کے مطابق تمام سیاسی جماعتیں اپنے اندر الیکشنز بھی کرواتی ہیں اور ان ''منصفانہ‘‘ انتخابات کے نتیجے میں بھی ان کے قریبی خاندانی رشتہ دار ہی پارٹی عہدوں پر منتخب ہو جاتے ہیں۔ الیکشن اخراجات کی کہانی بھی ایسی ہی ہے۔ اس لیے سیاست میں روپے پیسے کے بڑھتے ہوئے کردار نے عام کارکنوں کی سیاسی عمل میں شمولیت کو اور بھی محدود کر دیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔