سوئٹزرلینڈ، مساجد میں میناروں کی تعمیر پر پابندی سے کیا حاصل ہوا؟

سوئٹزر لینڈ میں دس برس پہلے مساجد میں میناروں پر پابندی کی گئی۔ یہ فیصلہ لوگوں کی اکثریت رائے سے ہوا تھا لیکن سوئس معاشرے پر اس کیا اثرات پڑے؟

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

سوئٹزرلینڈ کے زیادہ تر سیاست دان، مسیحی رہنما اور مسلم تنظیمیں اس پابندی کے خلاف تھیں۔ لیکن قدامت پسند جماعت سوئس پیپلز پارٹی اور مسیحی تنظیم فیڈرل ڈیموکریٹک یونین اس پابندی کے حق میں تھے۔ ان کا موقف تھا کہ مساجد کے لمبے لمبے مینار یورپ میں اسلام کی مذہبی اور سیاسی طاقت کی علامت بنتے جا رہے ہیں۔

اور جب عوامی ریفرنڈم ہوا تو ساڑھے ستاون فیصد سوئس ووٹروں نے میناروں پر پابندی کے حق میں ووٹ دے کر لوگوں کو حیران کر دیا۔


اس وقت پابندی کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ اس سے سوئٹزرلینڈ میں اسلام کی ترویج کو روکا جا سکے گا۔

ناقدین کا کہنا تھا کہ مینار تعمیر کرنا اسلام میں کوئی فرض نہیں، کیوں کہ قرآن میں میناروں سے متعلق کوئی حوالہ نہیں۔ پھر یہ کہ دنیا بھر میں ہزاروں ایسی مساجد موجود ہیں، جن کے مینار نہیں۔ اسی لیے کہا گیا کہ میناروں پر پابندی سے سوئٹزرلینڈ میں بسنے والے مسلمانوں کی عبادت پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔


دوسری جانب مسلم تنظیموں کا کہنا تھا کہ انتہائی دائیں بازو کے شدت پسند اس معاملے کو فقط سیاسی مفادات اور اسلام مخالف مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ سوئس بشپس کی کانفرنس نے بھی تب اپنے بیان میں کہا تھا کہ میناروں پر پابندی سے ترقی اور مذہبی ہم آہنگی کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔ حکومت کا بھی موقف تھا کہ ایسا کوئی اقدام غیرضروری ہوگا۔

اب اس متنازعیہ فیصلے کو ایک دہائی گزر چکی ہے۔ تاہم اس دوران سوئٹزرلینڈ میں مسلمانوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ بغیر مینار مساجد اب بھی ملک کے مختلف علاقوں میں موجود ہیں اور مزید بھی بن رہی ہیں۔


سوئٹزرلینڈ میں اسلام سرکاری طور پر تسلیم شدہ مذہب نہیں۔ اس کے باوجود ملک کا تیسرا بڑا مذہب ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں موجود ساڑھے چار لاکھ مسلم آبادی کی مختلف تنظیمیں اور عقائد ہیں۔ ان تنظیموں کی تعداد ساڑھے تین سو ہے، جب کہ قریب تین سو مساجد ہیں، جن میں سے صرف چار مساجد کے مینار ہیں۔

مساجد میں میناروں پر پابندی کے علاوہ سوئٹرزلینڈ کے دو علاقوں میں مقامی سطح پر برقعے پر پابندی ہے۔ بعض قدامت پسند حلقے اس پابندی کو پورے ملک میں لاگو کرنے کے حق میں ہیں لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ اس کے امکانات کم ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔