جرمنی میں سینڈلز بھی اور موزے بھی، وجہ کیا ہے؟

اب تو لوگ فیشن میں کھلے جوتے کے اندر موزے پہنتے ملتے ہیں، مگر جب یہ ایک مضحکہ خیز عمل تھا، تب بھی جرمنی یہی کچھ کرتے تھے۔ مگر جرمنی میں موزے پہن کر سینڈل پہننے کی روایت کیوں؟

جرمنی میں سینڈلز بھی اور موزے بھی، وجہ کیا ہے؟
جرمنی میں سینڈلز بھی اور موزے بھی، وجہ کیا ہے؟
user

ڈی. ڈبلیو

سینڈلز کے ساتھ موزے پہننا اب قابل قبول کے ساتھ ساتھ فیشن بھی بن چکا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر موسم سینڈلز پہننے کے لیے سازگار نہیں ہے، تو پھر بھی موزے پہننے پڑ رہے ہیں، تو پھر سینڈل پہننے کی ضرورت کیا ہے۔ پھر یہ کھلے جوتے بارش میں بھی کارگر نہیں یعنی لمحوں میں آپ کے موزے گیلے ہو جائیں گے۔ بارش اور کیچڑ میں یہ کمبینیشن تو کسی کام کا نہیں۔ مگر برسوں تک ان تمام حقائق کے باوجود جرمن شہری یہی کچھ پہنتے رہے۔

سینڈلز اور موزوں کو امتزاج ایک طرح سے جرمن شہریوں کی حوالے سے ایک قومی اسٹیریو ٹائپ کی شکل اختیار کر گیا اور یہی وجہ ہے کہ ڈی ڈبلیو کی کارٹون سیریز ' ڈائٹس سو جرمن‘ کے فن کار میگوئل فیرنانڈیس نے بھی اسے پیش کیا۔


انٹرنیٹ پر آپ کو 'ساکس اینڈ سینڈلز‘ کی بابت زیادہ کچھ نہیں ملے گا۔ وکی پیڈیا پر ایک پیج اس نام سے ضرور ہے، مگر یہ صفحہ جرمن زبان میں نہیں ہے۔ اس پیج پر تاہم لکھا ہے کہ موزوں کے ساتھ سینڈلز پہننے کے آثار انگلینڈ کے علاقے شمالی یارک شائر میں قدیمی رومن مقام سے دریافت کیے گئے تھے۔ یعنی قریب دو ہزار برس قبل رومنز سینڈلز پہنا کرتے تھے۔

انیسویں صدی میں مصر میں بھی رومانو مصری موزوں کا سراغ ملا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ چوتھی یا پانچویں صدی سے جڑی کچھ ایسی باقیات مصر سے ملی تھیں، جو سن 1900 سے لندن کے وی اینڈ ای میوزیم میں موجود ہیں۔ جاپانیوں کے ہاں بھی پندرہویں صدی سے سینڈلز اور موزوں کا امتزاج ملتا ہے۔


سوال لیکن یہ ہے کہ جب بہت سے ممالک میں لوگ سینڈلز اور موزے پہنتے ہیں، تو پھر یہ جرمنوں ہی کے ساتھ کیوں جڑا ہے؟ اس کا جواب ہے جرمن سیاح۔ جرمن شہری سیاحت کے اعتبار سے دنیا میں سب سے آگے رہے ہیں اور مختلف ممالک میں پہنچنے کے باوجود گھر جیسا محسوس کرنے کا انداز سلیپرز کے ساتھ موزے پہننے پر منتج ہوا۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ دیکھنے میں چاہے جیسے بھی لگیں، مگر سینڈلز پہننے پر بھی پیروں میں آنے والا پسینہ موزے جذب کر لیتے ہیں، یعنی آپ اس کمبینیشن کو غیرضروری نہیں قرار دے سکتے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔