پاکستانی مردوں کی مردانہ کمزوری

پاکستانی مرد خود کو خاصا مضبوط سمجھتے ہیں لیکن ملک کے ہر شہر، قصبے اور گاؤں کی دیواریں ان کی اس مضبوطی کا کچھ اور ہی حال بتاتی ہیں۔ آخر یہ مردانہ کمزوری کیا ہے اوراتنی عام کیوں ہے؟

پاکستانی مردوں کی مردانہ کمزوری
پاکستانی مردوں کی مردانہ کمزوری
user

Dw

میں نہ طبیب ہوں نہ حکیم ہوں بس انہی مردوں کے معاشرے میں رہنے والی ایک عام سی عورت ہوں۔ آدمی عموماً عورت کو کم عقل سمجھتے ہیں، یہیں سے ان کی مردانہ کمزوری شروع ہوتی ہے۔ مرد کو ساری عمر لگتا رہتا ہے کہ وہ عورت کو چلا رہا ہے جبکہ حقیقت میں عورت اس کی باگ سنبھالے اس کے پیچھے چلتے ہوئے اسے آگے کی راہ دکھا رہی ہوتی ہے۔ وہ بس اس کا اعتراف نہیں کرتی۔ بس چپ چاپ مرد کو اس کی حاکمیت کا مزہ چکھنے دیتی ہے۔ مرد عورت کو خود سے کم تر اور نیچ سمجھتے ہیں۔ گھر کی عورتیں انہیں اپنی باندیاں لگتی ہیں۔

کمزور مردوں کو عورت جہاں دکھائی دیتی ہے، گھر، دفتر، گلی، سڑک یا کسی عوامی یا نجی جگہ پر، یہ اس پر اپنی کمزوری کا اظہار کسی نہ کسی طریقے سے کر ہی دیتے ہیں۔ دوسری طرف پدرشاہی نظام صدیوں سے عورت کو مرد کی کمزوری ہونے کو اس کی فطرت سمجھنے کا سبق پڑھاتا آ رہا ہے۔ ’’یہ تو مرد کی فطرت ہے۔ وہ غصہ کرے گا۔ چیخے گا۔ بولے گا۔ باہر نکلو تو مختلف طریقوں سے تمہیں تنگ کرے گا۔ اس کی شکایت کرو گی تو اپنے لیے مزید مسائل پیدا کرو گی۔‘‘ بس عورتوں کو یہی نصیحتیں سننے کو ملتی ہیں۔


ویسے تو ہمارے ملک میں روزانہ بچیوں اور عورتوں پر ہر قسم کا تشدد ہوتا ہے۔ کبھی کبھار کوئی واقعہ میڈیا کی زینت بن جائے تو ہمارے کچھ صحافی دوست ایسے لوگوں یا اداروں کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں جو عورتوں کو مضبوط بننے کی ٹریننگ دیتے ہیں۔ کہیں کوئی انہیں جوڈو کراٹے سکھا رہا ہے تو کہیں کوئی انہیں ”ایمرجنسی کِٹ" بنانے کا طریقہ بتا رہا ہوتا ہے۔

لیکن مردوں کو کہیں کچھ نہیں سکھایا جا رہا ہوتا۔ شاید ہی کبھی میڈیا میں کوئی خبر آئی ہو کہ فلاں ادارہ مردوں کو اپنی کمزوری قبول کرنا سکھاتے ہوئے ان کی تربیت کر رہا ہے۔ انہیں بتا رہا ہے کہ جسے وہ اپنی کمزوری سمجھتے ہیں وہ ان کی کمزوری نہیں بلکہ بدرشاہی کی پڑھائی ہوئی وہ پٹیاں ہیں جو انہیں ایک تصوراتی طاقت کے نشے میں رکھتی ہیں۔ وہ اس طاقت کے نشے میں موقع پاتے ہی اپنی کمزوری کا اظہار کر دیتے ہیں۔ لیکن ہر کسی کا وقت پلٹتا ہے۔ جب دوسری طرف کا وقت شروع ہوتا ہے تو وہاں سے اس کمزوری کا جواب بھرپور انداز سے دیا جاتا ہے۔


اکثر خاندانوں میں اپنے وقت کے سورما لڑکے جوانی کا دور گزار کر جب اپنے بڑھاپے میں آتے ہیں تو ایک طرف پڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت ان گھروں میں وہ شیرنی ٹہل رہی ہوتی ہے جسے پوری زندگی اس سورما نے اپنی کمزوری کا نشانہ بنایا ہوتا ہے۔ اب وہ گھر میں ایک طرف بیٹھا اپنی ماضی میں محسوس ہونے والی طاقت کی حقیقت جان رہا ہوتا ہے۔

جن معاشروں نے اس بیماری کو سمجھا، انہوں نے اس کا بروقت علاج کیا اور اس طرح ان کی دیواریں ایسے اشتہارات سے پاک ہو گئیں جبکہ ہماری طرف ابھی مزید اشتہارات دیواروں کی زینت بن رہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بہت سے ادارے مردوں کی مردانہ کمزوری کا علاج کر رہے ہیں۔ وہ مختلف ورک شاپس اور مشقوں کی مدد سے مردوں کے دماغوں سے اس کمزوری کو نکالتے ہیں اور انہیں اس معاشرے کا ایک بہتر فرد بننے کی تربیت دیتے ہیں۔


اسی طرح کا ایک غیر منافع بخش ادارہ سمیک ہے جو گرافک ڈیزائن کلاسز، صنفی مسائل کے بارے میں تیار کردہ فلموں، اور نوجوان لڑکوں، نوعمروں اور بالغ مردوں کے لیے آگاہی مہم کے ذریعے بھارتی مردوں میں صنفی حساسیت کو فروغ دے رہا ہے ۔ سمیک کے ایزیکٹو ڈائریکٹر آنند پوار کہتے ہیں کہ وہ اپنی ورک شاپس میں آنے والے باپوں کو اپنے بیٹوں کے ساتھ جذباتی رابطے بڑھانے اور انہیں گھر اور اس سے باہر پدرانہ کنٹرول کے خطرات کے بارے میں بتانے کا کہتے ہیں۔

آنند پوار کہتے ہیں کہ بہت سے مرد نسائیت کے بارے میں جانتے ہیں لیکن انہوں نے طاقت کے تعلقات کے بارے میں نہیں سیکھا ہوتا جس کی وجہ سے وہ انجانے میں پدرشاہی کی طرف سے خود کو حاصل طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ آنند اپنی ورک شاپس میں مردوں کو تربیت دیتے ہیں کہ وہ مردانگی کے تصور اور طاقت اور استحقاق کے ساتھ اپنے تجربات پر غور کریں، بجائے اس کے کہ باہر جا کر خواتین کے سرپرست بنیں۔


ہمارے دوسرے پڑوسی ملک چین میں گرچہ پاکستان اور بھارت سے بہتر صنفی مساوات نظر آتا ہے، لیکن وہاں بھی مردوں اور عورتوں کے روایتی کرداروں کو دوبارہ سے اجاگر کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ وہاں حکومت چینی نوجوانوں کی نرم مزاجی اور شرمیلے پن سے پریشان ہے۔ وہ انہیں مردوں کا ایک مضبوط روپ دکھا کر ویسا بننے پر اکسا رہی ہے اور نوجوان لڑکیوں کو گھر اور اس کے کاموں کو اپنے کیرئیر پر فوقیت دینے کا کہہ رہی ہے۔

چینی نوجوان حکومت کی ان کوششوں کے بارے میں سخت رائے رکھتے ہیں اور وہ اس کا اظہار اپنے ٹویٹر پر کرتے رہتے ہیں۔ وہاں ایک معروف وکیل فینگ نے ایک غیر منافع بخش پروگرام شروع کیا ہوا ہے جس میں وہ مردوں کو عورتوں کا بہتر ساتھی اور بچوں کا بہتر باپ بننے کی تربیت دے رہے ہیں۔


فینگ کے اس پروگرام کا نام مردانہ خوبی ہے۔ وہ اس پروگرام کی کلاسز میں شرکت کرنے والے مردوں کو دقیانوسی خیالات سے نمٹنا اور گھر کی ذمہ داریوں میں شامل ہونا اور سماجی ذمہ داریوں کو فروغ دینا سکھا رہے ہیں۔ فینگ کی کلاسز میں وہ مرد آتے ہیں جو اپنی شادی اور اپنے گھر کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ فینگ نے اپنا پراگرام ملک کے بڑے شہروں شنگھائی، شینزین اور چینگڈو سے شروع کیا تھا کہ وہاں اس حوالے سے عوامی بیداری زیادہ تھی۔

فینگ اپنے تربیت یافتہ مردوں سے کہتے ہیں کہ وہ اس ٹریننگ کو آگے مردوں تک پہنچائیں تاکہ چینی معاشرہ مزید صنفی برابری کی طرف جا سکے۔ ہماری طرف شاید ہی کہیں ایسا کوئی پروگرام جاری ہو۔ اگر ہو تو ضرور مطلع فرمائیں اور اپنے گھر کے مردوں اور دوستوں کو اس میں حصہ لینے کی ترغیب دیں تاکہ ہم بھی صنفی برابری کی طرف جا سکیں یا کم از کم اپنے گھروں اور گلیوں کو بچیوں اور خواتین کے لیے محفوظ بنا سکیں۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔