کیا تاریخ میں کبھی کوئی سنہری دور بھی گزرا ہے؟

یونانی شاعر ہیسوڈ نے تاریخ میں سنہری دور کا تصور پیش کیا تھا۔ اس کو وہ سونے کی دھات سے تشبیہ دیتا تھا جو کبھی زنگ آلود نہیں ہوتا ہے۔ کیا تاریخ میں کبھی کوئی سنہری دور بھی گزرا ہے؟

کیا تاریخ میں کبھی کوئی سنہری دور بھی گزرا ہے؟
کیا تاریخ میں کبھی کوئی سنہری دور بھی گزرا ہے؟
user

Dw

سنہری زمانے سے ہیسوڈ (Hesiod) 650 قبل مسیح کی مراد ماضی کا ایک ایسا دور تھا، جس میں انسان امن و امان اور خوشحالی کے ساتھ رہتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے تہذیب میں ترقی ہوئی، سنہری زمانہ دور ہوتا چلا گیا اور انسان کے اجتماعی شعور میں اس کی یادیں باقی رہ گئیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنہری زمانے کو واپس لانے کی خواہشات بھی بڑھتی گئیں۔

یورپی عہد وسطیٰ میں مسیحی دنیا میں اس خیال کو تقویت ہوئی کہ جنت یا باغ عدن اسی دنیا میں واقع تھا جو حضرت آدم اور امّا حوا کے نکلنے کے بعد روپوش ہو گیا۔ امریکی محقق اور مصنف مارگریٹ تھومسن نے جنت کی تاریخ (History of Paradise) میں ان مہمات کا ذکر کیا ہے، جن میں جنت عرض کو تلاش کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ نقشوں کی مدد سے اس کھوئی ہوئی جنت کو کبھی مشرقی وسطیٰ میں، کبھی افریقہ میں اور کبھی جنوبی امریکہ میں تلاش کیا گیا، مگر ناکامی ہوئی۔


اطالوی تاجر اور مہم جو مارکو پولو نے چین جاتے ہوئے راستے میں اسماعیلی رہنما حسن الصباح کے مفروضہ جنت کے کھنڈرات کا ذکر کیا ہے۔ اسی مفروضے پر عبدل حلیم شرر نے 1926ء میں اپنا ناول فردوس بریں لکھا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کو سنہری دور اور جنت عرض کی خواہش رہی ہے۔ جہاں وہ جنگوں سے دور سماجی پریشانیوں سے نجات پاکر خوشی اور مسرت کی زندگی گزار سکے۔

سنہری زمانے کی خواہش اس وقت شدت کے ساتھ اُبھری جب ایشیا اور افریقہ کے ممالک یورپی سامراج کے تسلط میں آئے۔ یورپی ممالک نے انہیں غیر مہذب اور بار بیرین کہا۔ ان سے مقابلہ کرتے ہوئے جب ان ممالک کو شکست ہوئی تو ان کا اعتماد بھی ٹوٹا اور یہ احساس کمتری میں مبتلا ہو گئے۔ لہٰذا اپنی آزادی کی جدوجہد کے لیے انہیں کسی ایسے نظریے کی ضرورت تھی جو انہیں ہمت اور اعتماد دیتا۔


ان حالات میں انہوں نے شاندار ماضی میں سنہری زمانے کو ڈھونڈا۔ مثلاً ہندوستان میں آریا سماج، ہندو مہاسبہ اور ہندتوا نے اپنی تاریخ میں ویدوں کے زمانے کو سنہری کہا۔ گاندھی جی نے رام راجیہ کو سنہری زمانے کی حیثیت سے پیش کیا۔ ہندو انتہا پسند مورخوں نے اپنی تاریخ کو مبالغہ آمیزی کے ساتھ تشکیل دے کر تاریخ نویسی کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیا ہے۔ مثلاً ان کا دعویٰ ہے کہ ریگ وید جیالوجی کے ابتدائی زمانے میں لکھی گئی تھی۔ اُڑن کھٹولے سے مراد وہ جہاز لیتے ہیں اور یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ گنیش دیوتا کو ہاتھی کی سونڈ پلاسٹک سرجری کے ذریعے لگائی گئی تھی۔ سیاست میں ان مختلف سنہری زمانوں کو تشکیل دے کر خواص اور عوام میں قومیت کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔

مسلمان بھی اپنی تاریخ میں کئی سنہری زمانوں کی تشکیل کرتے ہیں۔ پہلا سنہری زمانہ خلافت راشدہ کا ہے جسے مثالی کہا جاتا ہے۔ دوسرا زمانہ عباسی دور حکومت ہے جس میں مسلمانوں کی فتوحات اور ان کے علمی اور ادبی کارنامے ہیں۔ تیسرا ہندوستان میں مغل حکومت کو سمجھتے ہیں، جس نے 1000 برس تک ہندوؤں پر حکومت کی تھی اور چوتھا خلافت عثمانیہ کا، جس کا خاتمہ پہلی عالمی جنگ کے بعد ہوا۔


جب بھی کسی قوم میں سنہری زمانے کی تلاش ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی اسے ماضی سے واپس حال میں لانے کے لیے احیاء کی تحریک اُٹھتی ہے، تاکہ شاندار ماضی اور سنہری زمانے کو واپس لاکر دوبارہ سے کھوئی ہوئی عظمت کو حاصل کریں۔ احیاء کی تحریک کی وجہ سے معاشرہ مستقبل کے بجائے ماضی کے اندھیروں میں گم ہو جاتا ہے۔

شبلی نعمانی کا مسلمانوں کو یہ مشورہ تھا کہ ان کی ترقی پیچھے جانے میں ہے۔ اس قدر پیچھے جائیں کہ ماضی کے سنہری زمانے تک پہنچ جائیں۔ احیاء کی تحریک چونکہ ماضی کے خیالات و افکار اور روایات کو مکمل اور جامع سمجھتی ہے۔ اس لیے اس میں جدید افکار کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس نظریے کے تحت تاریخ پہیے کی طرح گردش کرتی رہتی ہے اور اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے، جبکہ ترقی کے نظریے میں تاریخ سیدھے راستے یعنی ایک لکیر میں حرکت کرتی ہے۔


شاندار ماضی کی خواہش میں ایشیائی ملکوں کے ساتھ یورپی ممالک بھی شامل ہیں۔ مثلاً اہل یونان اپنا شاندار ماضی سقراط، افلاطون، ارسطو اور اس عہد کے ڈرامہ نگاروں میں تلاش کر کے اپنی تاریخ کو باوقار بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اٹلی میں جب موسولینی اقتدار میں آیا تو اس نے قدیم رومی ایمپائر کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ نہ صرف رومی عہد کی تاریخ کو قوم پرستی کے نقطہ نظر سے لکھا گیا بلکہ اس نے فتوحات کے ذریعے اس کی پرانی شان و شوکت کو عملی طور پر واپس لانا چاہا، مگر اٹلی کو ایتھوپیا میں شکست ہوئی اور وہ مشکل سے لیبیا اور صومالیہ میں اپنا قبضہ جما سکا۔ رومی سلطنت کے احیاء کا خواب پورا نہ ہو سکا۔

جرمنی میں بھی مفکروں اور مورخوں نے جرمن آریا نسل کی پرانی خوبیوں کو واپس لانے کے لیے نازی دور حکومت میں کئی اقدامات کیے۔ آریا نسل کی پاکیزگی کے لیے یہودیوں سے شادی بیاہ اور میل ملاپ کو ختم کرنے کی کوششیں ہوئیں اور اس پالیسی پر بھی عمل ہوا کہ ان کا جرمنی سے مکمل خاتمہ ہو جائے تا کہ جرمن نسل پاک ہو کر پرانی عظمت اور اوصاف کو حاصل کر سکے۔


سنہری زمانے اور احیاء کی تحریکوں کو کبھی کامیابی تو نہیں ہوئی مگر ناکامی کے باوجود پسماندہ معاشرے میں یہ خواہش ہمیشہ باقی رہی کہ وہ اپنے حالات سے مایوس ہو کر اپنی تاریخ کو دہرانا چاہتا ہے۔ خاص طور سے اس خواہش کی وجہ سے سیاست دان اور حکمران ان کو بار بار یقین دلاتے ہیں کہ وہ ماضی کا سنہری زمانہ واپس لائیں گے جو ان کے تمام مسائل کا حل ہو گا۔ جب تک سنہری دور کا تصور اور شاندار ماضی کا خیال باقی رہے گا، اس وقت تک لوگ گمراہی کے اندھیرے میں رہتے ہوئے پسماندہ رہیں گے اور اس مفروضے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سیاست دان اور مذہبی رہنما اپنا اثرور سوخ قائم رکھیں گے۔

تاریخ کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اب تک کسی بھی عہد میں شاندار ماضی کا احیاء نہیں ہوا اور سنہری دور کا تصور ہمیشہ ایک خواب ہی رہا، کیونکہ سنہری زمانہ کبھی بھی تاریخ میں نہیں رہا۔ یہ مورخ اور دانشمند ہیں جو کسی زمانے کو شاندار بنا دیتے ہیں اور کسی کو پسماندہ اگر اس حقیقت کو سمجھ لیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ سنہری زمانہ ماضی میں نہیں بلکہ مستقبل میں ہے اور جس کی تشکیل کے لیے معاشرے کو قربانیاں دینا ہوں گی اور فرسودہ روایات اور اداروں سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔