اسد طور پر تشدد، کئی حلقوں کی طرف سے مذمت، انکوائری کا مطالبہ

سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے صحافی اسد طور پر تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اسد طور کو اسٹیبلشمنٹ مخالف صحافی سمجھا جاتا ہے۔

اسد طور پر تشدد، کئی حلقوں کی طرف سے مذمت، انکوائری کا مطالبہ
اسد طور پر تشدد، کئی حلقوں کی طرف سے مذمت، انکوائری کا مطالبہ
user

Dw

پولیس کو درج کرائی گئی شکایت اور اسد کے قریبی ذرائع کے مطابق تین افراد زبردستی ان کے گھر میں داخل ہوئے، ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کران پر تشدد کیا اور ان پر غداری کا الزام لگایا۔

صحافی تنظیم کی مذمت

پاکستان فیڈرل یو نین آف جرنلسٹس نے اس واقعے کی بھرپور مذمت کی ہے۔ یونین کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ایک طرف حکومت صحافیوں کے تحفظ کے لیے بل لا رہی ہے اور دوسری طرف میڈیا مخالف عناصر ہم پر حملے کر رہے ہیں۔ حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر صحافیوں پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار نہیں کیا گیا توہم پورے ملک میں ہڑتال کریں گے۔‘‘


حملوں کا تسلسل

پاکستان میں ناقدین کا خیال ہے کہ صحافیوں کو کچھ عرصے سے مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کچھ مہینے پہلے معروف صحافی اور اینکر مطیع اللہ جان کو اسلام آباد کے ایک مصروف علاقے سے اغوا کیا گیا۔ تاہم اغواء کاروں نے بعد ازاں ان کو رہا کر دیا تھا۔ کچھ ہفتے قبل سابق چیئرمین پیمرا ابصار عالم پر فائرنگ کر کے انہیں زخمی کیا گیا۔ ناقدین کا دعوی ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں کا نشانہ زیادہ تر وہ صحافی بن رہے ہیں، جو اسٹیبلشمنٹ مخالف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ صحافیوں کو قوم پرست تنظیموں اور مذہبی و فرقہ وارانہ جماعتوں کی طرف سے بھی دھمکیوں اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نوے کی دہائی میں مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں معروف صحافی نجم سیٹھی کو کچھ وقت کے لیے غائب کیا گیا تھا جب کہ صحافی تنظیموں کو پی ٹی آئی، پی پی پی اور ایم کیو ایم سے بھی شکایات رہی ہیں۔

پرانی ریت

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کے صحافیوں کو ہدف بنانا پاکستان میں پرانی روایت ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' پاکستان ایک جمہوری ملک نہیں ہیں بلکہ یہاں مذہبی اور انتہا پسند عناصر کا تسلط ہے، اس لیے یہاں تصور آزادی اظہار رائے حقیقی معنوں میں تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ایوب خان کے دور سے پہلے حکومتیں صحافیوں کو نشانہ بناتی تھیں اور بعد میں بھی انہیں نشانہ بنایا گیا۔‘‘


ان کا مزید کہنا تھا کہ کیونکہ موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب ہے اس لئے بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ ان حملوں اور کارروائیوں کے پیچھے ممکنہ طور پر خفیہ ادارے ملوث ہو سکتے ہیں۔

جمہوریت پسند صحافی نشانے پر

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماء اور سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ اگر آپ ان کارروائیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ اس طرح کی کارروائیاں زیادہ تر جمہوریت پسند صحافیوں کے خلاف ہورہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جن صحافیوں نے اسٹیبلشمنٹ کی لائن لی اور ضمیر فروشی کی وہ آج ارب پتی بنے ہوئے ہیں لیکن جو صحافی آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں، ان کو اغوا کیا جاتا ہے۔ تشدد کیا جاتا ہے یا قتل کیا جاتا ہے۔ سارے واقعات کی انکوائری ہونی چاہیے۔‘‘


پی پی کے رہنما اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا عثمان کاکڑ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس معاملے کی مکمل تحقیات ہونی چاہییں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں اس معاملے کی انکوائری کے لیے پارلیمنٹری انکوائری کمیٹی بنائی جانی چاہیے یا پھر عدالتی کمیشن بنانا چاہیے تاکہ وہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرے۔ اس کے علاوہ اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں بھی اٹھانا چاہیے اور میں بذات خود اس مسئلہ کو پارلیمنٹ میں اٹھاؤں گا۔‘‘

غیر اعلانیہ مارشل لا

سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسلام آباد صحافیوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن گیا ہے جہاں صحافت سے وابستہ افراد پر تابڑ توڑ حملے ہو رہے ہیں،''کٹھ پتلی حکومت نے ابھی صحافیوں کے تحفظ کے لیے ایک بل پیش کیا ہے اور اب یہ واقعہ ہو گیا ہے یہ سب کچھ ایک ایسے ادارے کی طرف سے کیا جا رہا ہے جو اپنے آپ کو قانون سے ماورا سمجھتا ہے۔ پارلیمنٹ کو چاہیے کہ اس ادارے کو قانون کے تابع کرے اور اس کے لیے قانون سازی کرے۔ اس کے علاوہ غاصبوں سے نمٹنے کے لیے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی بھی کی جانی چاہیے۔‘‘


انہوں نے سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں حقیقی جمہوریت بحال کرنے کے لیے عوامی جدوجہد ہونی چاہیے ۔ ان کے بقول،''سیاسی جماعتیں پہلے ہی ہتھیار ڈال چکی ہیں۔ ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگ گیا ہے لیکن سیاسی جماعتیں اس مسئلے کے خلاف جدوجہد کرنے کے بجائے اقتدار میں اپنی باری حاصل کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ سے سازباز کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایسے میں عوامی حقوق کا اور آئین کا تحفظ کون کرے گا۔‘‘

فالس فلیگ آپریشن

تاہم پاکستانی میڈیا میں ملک کے سکیورٹی اداروں کا دفاع کرنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ اسد علی طور پر حملہ فالس فلیگ آپریشن ہو سکتا ہے۔ معروف تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں یہ ایک ایسا ہی آپریشن ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "کیونکہ اسد علی طور اسٹیبلشمنٹ کو ہدف تنقید بنا رہا تھا۔ اس لیے نون لیگ کے حامیوں نے ممکنہ طور پر یہ آپریشن کیا اور پھر نون لیگ کے جوتے چاٹنے والوں نے اس کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں اب یہ ایک رجحان بن گیا ہے کہ ہر چیز کا الزام فوج پر لگا دیں۔ اس آپریشن کا مقصد بھی صرف فوج کو بد نام کرنا ہے۔‘‘


فوج مخالف پروپیگنڈہ

ان کا مزید کہنا تھا،''جو نون لیگ الیکشن میں دھاندلی کر سکتی ہے۔ وہ اسد علی طور پر حملہ بھی کروا سکتی ہے اور پھر اپنے زرخرید صحافیوں سے آرمی کے خلاف مہم بھی چلوا سکتی ہے۔ نون لیگ کے جوتے چاٹنے والے اس لیے نواز شریف سے وفادار ہیں کیوں کہ نون لیگ نے ابصارعالم کو پیمرا کا چیئرمین بنایا۔ ایک اور صحافی جس کی تعلیمی قابلیت بہت زیادہ نہیں تھی اس کو کیوبا میں سفیر بنایا اور اسی طرح دوسرے زرخرید صحافیوں کو مختلف عہدے دیے۔ یہ زر خرید اب اسد علی طور پر حملے کو لے کر آرمی کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */