منی پور کے واقعات پر اب امریکہ، برطانیہ کا بھی اظہار تشویش

منی پور کے واقعات پر برطانوی پارلیمان میں اظہار تشویش کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے بھی انہیں 'انتہائی تشویش ناک‘ قرار دیا ہے۔ خواتین کی برہنہ پریڈ کی ویڈیو کے بعد دیگر خواتین کے ریپ کی بھی خبریں ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ آئی اے این ایس</p></div>

تصویر بشکریہ آئی اے این ایس

user

Dw

بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں تین مئی سے شروع ہونے والے نسلی تشدد کی ہولناک تصویریں دھیرے دھیرے منظر عام پر آنے لگی ہیں حالانکہ ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت انٹرنیٹ پر پابندیوں میں مسلسل توسیع کر رہی ہے۔ یہ معاملہ بھارتی پارلیمان میں بھی چھایا ہوا ہے اور ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ایوان کی کارروائی چوبیس جولائی کے روز بھی ملتوی کرنا پڑ گئی۔

گزشتہ ہفتے جب منی پور کی دو قبائلی خواتین کو ہندو اکثریتی میتئی شر پسندوں کی جانب سے برہنہ کر کے ان کی پریڈ کرانے کی ویڈیو منظر عام پر آئی تھی، تو سخت ردعمل سامنے آیا تھا اور 77 دنوں کے بعد پہلی مرتبہ وزیر اعظم نریند مودی نے پارلیمان کے باہر ایک بیان بھی دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس واقعے نے پورے ملک کو شرمسار کر دیا ہے اور قصور وار افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔


حیرت کی بات یہ ہے کہ اس ویڈیو میں خواتین کو برہنہ کر کے ان کی پریڈ کرانے والے ہجوم میں شامل افراد کے چہرے واضح طور پر نظر آرہے ہیں لیکن 80 دن سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود اب تک صرف چھ لوگوں کو ہی گرفتار کیا جا سکا ہے۔ اس دوران پولیس کے پاس درج کرائی گئی ایک ایف آئی آر کے مطابق چار مئی کو ہی دو دیگر خواتین کے اجتماعی ریپ کے بعد انہیں قتل بھی کر دیا گیا تھا۔

منی پور تشدد کے واقعات پر عالمی ردعمل

امریکہ نے خواتین کی برہنہ پریڈ کرائے جانے کے واقعے پر اتوار کے روز تشویش کا اظہار کیا۔ اس سے قبل برطانوی پارلیمان میں بھی اس واقعے کی گونج سنائی دی تھی۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ منی پور میں دو خواتین پر جنسی تشدد کا واقعہ انتہائی 'تشویش ناک‘ اور 'خوفناک‘ ہے اور امریکہ متاثرین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔


وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ منی پور میں تشدد کے واقعات کے پرامن اور جامع حل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور حکام سے اپیل کرتا ہے کہ تمام گروپوں، مکانات اور مذہبی مقامات کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی ضروریات کا بھی خیال رکھا جائے۔ قبل ازیں چھ جولائی کو بھارت میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی نے ایک عوامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے منی پور کی صورت حال پر تشویش ظاہر کی تھی۔ انہوں نے حالات سے نمٹنے میں امریکہ کی طرف سے مدد کی پیش کش بھی کی تھی۔ بھارت نے ان کے بیان پر سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔

برطانوی پارلیمان میں بھی منی پور تشدد کی گونج

برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک کی خصوصی مشیر برائے مذہبی آزادی اور رکن پارلیمان فیونا بروس نے گزشتہ ہفتے ملکی پارلیمان میں منی پور کے مسئلے کو اٹھایا اور وہاں ''بڑے پیمانے پر جاری تشدد‘‘ پر تشویش کا اظہار کیا۔


بروس کا کہنا تھا، ''مئی کے اوائل میں شروع ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد سینکڑوں گرجا گھروں کو آگ لگا دی گئی ہے۔ ان میں سے بہت سے مکمل طور پر راکھ ہو گئے، 100 سے زائد افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے، 50 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور اسکولوں اور مذہبی تعلیمی اداروں کو بھی منظم طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ جیسے یہ سب کچھ منصوبہ بندی سے کیا جا رہا ہے، جس میں مذہب ایک کلیدی عنصر ہے۔‘‘

برطانوی اخبار گارڈین نے بھی منی پور تشدد پر تفصیلی رپورٹ شائع کی اور لکھا کہ وزیر اعظم مودی کے وہاں اب تک دورہ نہ کرنے پر ان پر تنقید ہو رہی ہے۔ اخبار نے لکھا ہے، ''تشدد میں مسلسل اضافے کے باوجود مرکز میں بی جے پی کی حکومت خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔‘‘


حالانکہ مرکزی حکومت نے ریاست میں مرکزی نیم فوجی دستوں کی مزید تعیناتی کا فیصلہ کیا ہے، منی پور کے دارالحکومت امپھال میں سرگرم ایک رضاکار تنظیم 'کوآرڈینیٹنگ کمیٹی آن منی پور انٹیگریٹی‘ نے منی پور کے حوالے سے قرارداد منظور کرنے پر یورپی پارلیمنٹ کی تعریف کی ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ اس بھارتی ریاست میں جاری تشدد پر وزیر اعظم مودی کی 'پراسرار خاموشی‘ کے مدنظر یہ بڑی اہم بات تھی۔

منی پور معاملے پر بھارتی پارلیمان میں ہنگامہ

بھارتی پارلیمان کا 20 جولائی سے شروع ہونے والا اجلاس ہنگامہ آرائی کی وجہ سے مسلسل ملتوی ہو رہا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ منی پور میں تقریباً 80 دنوں سے جاری تشدد پر وزیر اعظم نے پارلیمان کے باہر صرف 36 سیکنڈ بات کی۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ جب پارلیمان کا اجلاس چل رہا ہو، تو انہیں اتنے اہم اور سنگین مسئلے پر پارلیمان کے اندر بیان دینا چاہیے۔


ملکی اپوزیشن کا کہنا ہے کہ چونکہ حکومت امن و قانون برقرار رکھنے میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے، اس لیے وزیر اعظم پارلیمان میں بیان نہ دے کر اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بی جے پی کا تاہم کہنا ہے کہ حکومت اس معاملے پر بحث کے لیے تیار ہے لیکن اپوزیشن اس میں غیر ضروری رخنے ڈال رہی ہے۔ بھارت میں مرکز اور ریاست منی پور دونوں ہی جگہوں پر ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومتیں ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔