شناختی کارڈز پر ’جنسی مجرم‘ لکھنا غیر آئینی ہے، سپریم کورٹ

امریکی ریاست لوئیزیانا کی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ سزا یافتہ جنسی مجرموں کو جاری کی گئی سرکاری شناختی دستاویزات پر ان کی پہچان کے طور پر ’جنسی مجرم‘ کی اصطلاح کا لکھا جانا غیر قانونی ہے۔

فائل تصویر سوشل میڈیا بشکریہ سٹی پروفائل
فائل تصویر سوشل میڈیا بشکریہ سٹی پروفائل
user

ڈی. ڈبلیو

لوئیزیانا میں یہ طریقہ کار جاری ہے کہ خاص طرح کے جنسی جرائم کے مرتکب اور اس وجہ سے سزا یافتہ افراد کو جو ریاستی شناختی دستاویزات جاری کی جاتی ہیں، ان میں متعلقہ مرد یا عورت کی تصویر کے نیچے اورنج کلر میں جلی حروف میں SEX OFFENDER یا 'جنسی مجرم‘ بھی لکھا ہوتا ہے۔

نیو اورلینز سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس سلسلے میں ایک مقدمے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ریاستی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ سزا یافتہ جنسی مجرموں کو جاری کردہ سرکاری شناختی دستاویزات پر 'جنسی مجرم‘ کے متنازعہ قرار دیے جانے والے الفاظ کا لکھا جانا غیر آئینی ہے۔


مقدمے کی وجہ بننے والا شخص

اس عدالت کے ججوں نے ایک کے مقابلے میں چھ کی اکثریت سے ایک ایسے شخص کے خلاف دائر کردہ مقدمہ خارج کر دیا، جس پر الزام تھا کہ اس نے اپنے نام جاری کردہ اسٹیٹ ڈرائیونگ لائسنس سے اس پر انگریزی میں چھپے ہوئے 'جنسی مجرم‘ کے الفاظ کھرچ کر مٹا دیے تھے۔


سماعت کے دوران ریاستی دفتر استغاثہ کے وکلاء نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ایسی شناختی دستاویزات جاری کرنے والی اتھارٹی کے طور پر ریاست لوئیزیانا کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسے سزا یافتہ مجرموں کے بارے میں ان کی شناختی دستاویزات پر جلی حروف میں یہ سچ لکھ سکے کہ ایسے افراد ماضی میں جنسی نوعیت کے جرائم کے مرتکب ہوئے تھے اور یہ بات قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو ایسے افراد کی دستاویزات چیک کرتے ہوئے پتا چلنا چاہیے۔

ججوں کی غالب اکثریت کی رائے


لوئیزیانا کی اسٹیٹ سپریم کورٹ کے جج جیمز جینوویز نے اپنی اور اپنے ہم خیال دیگر پانچ ججوں کی طرف سے اس مقدمے میں فیصلہ لکھتے ہوئے کہا، ''حکام کے پاس ایسے دیگر امکانات بھی موجود ہیں، جن کے ذریعے ضرورت پڑنے پر شناختی دستاویزات کی چیکنگ کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو یہ بتایاجا سکتا ہے کہ متعلقہ فرد ماضی میں کسی جنسی جرم یا جرائم کا مرتکب ہوا تھا۔ مثلاﹰ اس کے لیے ڈرائیونگ لائسنس سمیت شناختی دستاویزات پر کوئی علامت، کوئی کوڈ یا کوئی ایسا حرف بھی لکھا یا چھاپا جا سکتا ہے، جس سے یہ علم ہو سکے کہ متعلقہ فرد ماضی میں ایک جنسی مجرم رہا ہے۔‘‘

جج جیمز جینوویز کے مطابق، ''ریاست کے پاس ویسے بھی جنسی جرائم کے مرتکب افراد کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی دیگر ممکنہ طریقے بھی ہو سکتے ہیں، بجائے اس کے کہ ماضی میں کسی بھی جنسی جرم کے ارتکاب کی وجہ سے سزا پانے والے کسی فرد کو بار بار مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی شناخت کرواتے ہوئے اپنی پہچان کسی جنسی مجرم کے طور پر کرائے۔‘‘


اس مقدمے میں فیصلے کے وقت باقی چھ ججوں سے اختلافی رائے رکھنے والے جج ولیم کرین کے مطابق کسی جنسی مجرم کے شناختی کارڈ پر اگر اس کے بارے میں یہی دو متنازعہ الفاظ لکھے ہوئے بھی ہوں، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ خود اس فرد کی اپنے بارے میں رائے ہے بلکہ یہ تو ریاست کی اس کے بارے میں رائے ہے، جو بجا ہے۔

جج ولیم کرین کے بقول ایسے کسی سزا یافتہ مجرم کی شناختی دستاویزات پر 'جنسی مجرم‘ کے الفاظ کا لکھا جانا حکومت کے قانونی اختیارات کا حصہ ہے، جسے دراصل 'حقائق کی بنیاد پر قائم کردہ سرکاری رائے کی تحریری شکل‘ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */