طارق عزیر اور لامبا کی موت: بھارت، پاکستان سفارت کاری کا ایک باب بند

کیا اتفاق ہے کہ بھارت اور پاکستان کے دو زیرک سفارت کار، جنہوں نے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کا ایک فارمولہ تیار کرکے، جنوبی ایشا کو امن کا گہوارہ بنانے کی کوشش کی تھی، یکے بعد دیگرے انتقال کر گئے۔

طارق عزیر اور لامبا کی موت: بھارت، پاکستان سفارت کاری کا ایک باب بند
طارق عزیر اور لامبا کی موت: بھارت، پاکستان سفارت کاری کا ایک باب بند
user

Dw

جون میں نئی دہلی میں ستیندر کمار لامبا کی موت کے بس چار ماہ بعد ہی اسلام آباد میں طارق عزیز، جنہوں نے صدر پرویز مشرف کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں، گزشتہ ماہ 81 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔

ان دونوں سفارت کاروں نے پاکستان اور بھارت کے مابین قیام امن کی کوششوں کو ایک نئی زندگی بخشی تھی۔یادوں کی پرچھائیاں ابھی تک دامن سے لپٹی ہوئی ہیں۔وہ اکتوبر سن 2008 کا ایک دن تھا۔


پاکستان کے صدر پرویز مشرف کے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے دو ماہ بعد، واہگہ اٹاری بارڈر پر ستیندر لامبا اور طارق عزیز کی جب ملاقات ہوئی، تو وہ ایک دوسرے سے گلے مل کر رو رہے تھے۔ ان دونوں کو معلوم تھا کہ ہمسایہ ممالک کے درمیان امن قائم کرنے کے لیے انہوں نے جو پیش رفت پچھلے پانچ سالوں میں کی تھی، وہ اب بس فائلوں میں ہی دب کر رہ جائے گی۔

اس ملاقات کے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہ ایک جذباتی منظر تھا۔ صدر مشرف اور بھارت میں پہلے اٹل بہاری واجپائی اور پھر من موہن سنگھ کی ایما پر دونوں سفارت کاروں نے کشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے ایک نان پیپر تیار کیا تھا اور اس کے اکثر نکات پر دونوں ممالک متفق ہو گئے تھے۔ دونوں ممالک نے طے کیا تھا کہ اس مسئلے کو انسانی بنیادوں پر حل کرکے پائیدار امن کی داغ بیل ڈالی جائے۔


لیکن جب تک وہ آخری نکتے پر پہنچ جاتے اور دونوں ممالک کے اداروں کو منواتے، تب تک دیر ہو چکی تھی۔ پاکستان میں مشرف کا تحتہ الٹ چکا تھا جبکہ بھارت میں من موہن سنگھ کو انتخابات کا سامنا تھا۔ اس وقت سنگھ کی کانگریس پارٹی ہاتھ کھنچ رہی تھی۔ لامبا اور عزیز کی آخری ملاقات کے ایک ماہ بعد ہی نومبر سن 2008 میں ممبئی پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں نے اس سفارت کاری کو ضائع کر دیا۔ اس سے قبل سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین دھماکے نے بھی اس عمل کو پٹڑی سے اتارنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

ان دونوں مذاکرات کاروں کی خاص بات یہ تھی، کہ جہاں لامبا پاکستان کے شہر پشاور میں پیدا ہوئے تھے، عزیر کی پیدائش دہلی کی تھی۔ لامبا کی اہلیہ کا تعلق بھی لاہور سے تھا۔لاکھوں ہندو اور سکھ مہاجروں کی طرح، وہ بھی کبھی اپنی جڑوں سے تعلق ختم نہیں کر سکے۔


جب وہ 1978-81 تک ڈپٹی ہائی کمشنر اور پاکستان میں ہائی کمشنر (1992-95) کے طور پر تعینات رہے، تو انہوں نے ذاتی تعلقات استوار کیے، جو بعد میں بھارت اور پاکستان کے درمیان امن عمل کی بنیاد رکھنے میں معاون ثابت ہوئے۔

عزیز کی رگوں میں پنجابیت دوڑتی تھی۔ امرتسر کے لیے ان کی کشش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ مشرف اور عزیز لاہور کالج میں اکٹھے پڑھے تھے۔ بعد میں مشرف فوج میں بھرتی ہو گئے اور عزیز کسٹم سروس میں۔ ان کی دوستی سال در سال پروان چڑھتی رہی اور پختہ تر ہوتی گئی۔ جب مشرف نے صدر کا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے بھارت کے ساتھ مذاکرات اور امن معاہدہ کرنے کے لیے اپنے قابل اعتماد دوست کا انتخاب ہی کیا۔


عزیز کا انتخاب کرتے وقت مشرف کو اپنی ہی فارن سروس کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پاکستان میں بیوروکریسی اکثر عزیز کی مذاکراتی صلاحیتوں اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ان کی سمجھ کو چیلنج کرتی رہی۔

یہاں تک کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے عزیز کی تمام حرکتوں پر قریبی نظر رکھی ہوئی تھی۔ تب اکثر بیوروکریٹک اور انٹیلی جنس لابیوں کی طرف سے عزیز کے خلاف میڈیا میں خبریں پلانٹ کی جاتی تھیں۔ لیکن عزیز اور نہ ہی مشرف نے ایک بار بھی اپنے اس فیصلے پر شکوہ کیا۔ عزیز کی پنجاب سے محبت اور بھارت کے ساتھ امن کی چاہت مشرف کو اچھی طرح معلوم تھی۔


مشرف کو یہ بھی محسوس ہوا کہ سفارت کاروں کے برعکس عزیز امن کے لیے زیادہ حساس تھے اور بھارت کے ساتھ گفتگو کے دوران وہ سفارت کاروں کے روایتی رویہ کے برعکس ذاتی سطح پر مسائل کو حل کرنے کی سکت رکھتے تھے۔

اگر کبھی بھارت پاکستان کے امن کے سفر کی تاریخ لکھی جائے تو سن 2004 تا 2008ء ایک سنہری دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ وہ وقت تھا، جب دونوں ممالک خون کا ایک قطرہ بہائے اور کچھ لو اور دو کے بغیر اس مسئلہ کو حل کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔انہوں نے سرحدوں کو کھولنے اور فوجی کشیدگی کم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔


سن 2008 کے بعد بھی کسی نہ کسی سطح پرنان پیپر میں موجود اس حل کے احیا کی امیدیں بندھی تھیں۔ مگر 2014ء میں جب نریندر مودی نے بھارت کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا تو یہ امیدیں مکمل طور پر دم توڑ گئیں۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد عزیز نے اپنا روایتی لو پروفائل برقرار رکھا، انہوں نے کسی عوامی کانفرنس یا سیمینار میں شرکت نہیں کی اور نہ ہی اخبار میں کالم لکھے۔ وہ بہت پرائیویٹ شخص رہے، جس کی زندگی گھر اور کتابوں تک محدود رہی۔ وہ صحافیوں یا سیاستدانوں یا سفارت کروں سے ملنے سے بھی پرہیز کرتے تھے۔

کچھ صحافی جو ان کے ساتھ رابطے میں رہے، ان کے ساتھ ملاقاتوں کو یاد کرتے ہوے بتاتے ہیں کہ انہیں بے حد افسوس تھا کہ ایک حل جو کامیابی کی دہلیز تک پہنچ گیا تھا، اچانک پھسل گیا۔ وہ کہتے تھے کہ ایسا موقع صدیوں میں قوموں کو نصیب ہوتا ہے۔ عزیز صاحب کی بات کئی لحاظ سے درست تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب دونوں ملکوں کے سربراہوں کی جڑیں ایک دوسرے کے ممالک میں تھیں۔ دونوں مذاکرات کار پنجابی تھے۔ پھر سربراہان جیسے مشرف دہلی میں پیدا ہوئے تھے اور من موہن سنگھ پاکستان سے ہجرت کرکے آئے تھے۔


اسی سال کے شروع میں، لندن کے ایک سول سوسائٹی گروپ نے دونوں مذاکرات کاروں کے درمیان ایک آن لائن میٹنگ کا اہتمام کیا تھا۔ میٹنگ میں چند صحافی بھی موجود تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ یہ ان دونوں کے درمیان آخری ملاقات تھی اور دونوں بہت ہی جذباتی بھی۔ دونوں طرف سے سفارت کاروں اور امن کے لیے کام کرنے والوں کا خیال ہے کہ مسئلہ کا ان کا تجویز کردہ حل ایک نہایت ہی عملی حل ہے۔

دونوں ممالک میں نوجوان نسل کو ایک دوسرے کے ساتھ ملنے کے محدود مواقع ملے ہیں۔ سیاست دانوں اور سفارت کاروں کی نئی نسل ایک دوسرے سے کوسوں دور ہے۔ بات چیت نہ ہونے کی وجہ سے ربط مزید کمزور ہوتے جا رہا ہے۔ ان دونوں مذاکرات کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ان کا تجویز کردہ حل نافذ ہوجاتا تو کشمیر ایک بفر زون کی طرح دونوں ممالک کے درمیان کام کر سکتا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان اختلافات ختم ہو سکتے تھے۔


اب عزیز اور لامبا دونوں کے جانے سے کشمیر پر بھارت اور پاکستان کی سفارت کاری کے بہت سے پوشیدہ پہلو بھی راز میں ہی رہیں گے۔ مگر ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ انتقال سے قبل لامبا نے اپنی کتاب کا مسودہ مکمل کر لیا تھا۔ اب انتظار ہے کہ ان کی فیملی کب اس کو شائع کرائی گی تاکہ بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھ جائے اور دونوں ممالک کی شاید کچھ راہنمائی بھی ہوجائے۔

بقول اقبال

جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بین

جگر خُوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ‌وَر پیدا


نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔