’برقعہ پر پابندی عائد کرنا شہری آزادی کے منافی‘

ماہر اسلامیات اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر اختر الواسع نے کہا ہے کہ برقعہ پر پابندی عائد کرنے کی کوئی بھی کوشش ہندوستانی آئین میں دی گئی شہری آزادی کی ضمانت کے منافی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

ماہر اسلامیات اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر اختر الواسع نے کہا ہے کہ برقعہ پر پابندی عائد کرنے کی کوئی بھی کوشش ہندوستانی آئین میں دی گئی شہری آزادی کی ضمانت کے منافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ”یہ کام حکومتوں،سیاسی جماعتوں یا تنظیموں کا نہیں ہے کہ وہ عورتوں کو یہ ہدایت دیں یا ان پر دباؤ بنائیں کہ وہ برقعہ کا استعمال کریں یا نہ کریں۔ ہمارا ملک ایک ثقافتی اور تہذیبی تنوع کا ملک ہے اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ یہ ہر انسان کو آزادی اور خود مختاری عطا کرتا ہے۔ اس لیے یہ حکم جاری کرنا یا مشورہ دینا بالکل درست نہیں ہے کہ ہماری غذا اور لباس کے سلسلے میں کیا ترجیحات ہونی چاہئیں۔''


خیال رہے کہ سری لنکا میں ایسٹر کے موقع پر ہوئے خود کش دھماکہ کے بعد وہاں کی حکومت نے خواتین کے چہرہ ڈھکنے پر پابندی عائد کردی ہے جس کے بعد ہندوستا ن میں بھی کچھ جماعتوں کی جانب سے ایسے ہی اقدام کا حکومت سے مطالبہ کیا جارہا ہے۔
پروفیسر اختر الواسع نے کہا ”جوکچھ سری لنکا میں ہوا اور دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کے نام پر ہو رہا ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے لیکن اس کا تعلق برقعہ سے جوڑنا بڑی شرمناک کوشش ہے۔ ایک مخصوص مذہب کو پہلے عقائد کی بنیاد پر اور اب نقاب کی بنیاد پر نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔“

مولانا آزاد یونیورسٹی جودھ پور کے وائس چانسلر پروفیسر اختر الواسع کا مزید کہنا تھا، ”جو عورتیں برقعہ میں ہوتی ہیں اور ہوائی اڈوں پر یا دیگر مقامات پر خواتین سکیورٹی اہلکار ان کی جانچ کرتی ہیں اس پر ہمیں کبھی کوئی اعتراض نہیں۔ دہشت گردی سے تحفظ حاصل کرنا سب کا حق ہے اس لیے ہم تحفظ کو یقینی بنانے کے بالکل خلاف نہیں ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی کو پہلے اسلامی عقائد سے جوڑنے کی کوشش کی گئی اور جب اس میں ناکامی ہاتھ لگی تو اب لباس سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔''

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 03 May 2019, 9:10 PM