عشروں پہلے فرانس بھیجے گئے ’چوری شدہ‘ بچوں پر آخر کیا گزری؟

فرانس کے سمندر پار علاقے لا ری اُونیون کے وہ تقریباﹰ دو ہزار بچے جنہیں پیرس حکومت نے عشروں پہلے ان کے والدین سے علیحدہ کر کے زبردستی فرانس بھیج دیا تھا،آج بھی بہت سے سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہیں۔

عشروں پہلے فرانس بھیجے گئے ’چوری شدہ‘ بچوں کے ہنوز جواب طلب سوالات
عشروں پہلے فرانس بھیجے گئے ’چوری شدہ‘ بچوں کے ہنوز جواب طلب سوالات
user

Dw

فرانس ماضی میں بہت بڑی نوآبادیاتی طاقت رہا ہے۔ 1960ء اور 1980ء کے درمیانی عرصے میں فرانس کا سمندر پار علاقہ کہلانے والے لا ری اُونیون (La Réunion) سے تقریباﹰ دو ہزار مقامی بچوں کو ان کے والدین سے علیحدہ کر کے جبری طور پر فرانس بھیج دیا گیا تھا۔ ماضی کے یہ بچے آج کے بزرگ شہری ہیں اور ان میں سے بہت سے آج بھی اپنے ذہنوں میں اٹھنے والے ان بےشمار سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہیں، جو ان کے زخموں کو مندمل کر سکیں۔

'اندر آنسو، باہر ہنسی‘


ایمیل بینوآ ہوآرو دیکھنے میں چمکدار آنکھوں اور مسکراتے چہرے والے ایک انسان ہیں، جنہین زندگی سے محبت ہے۔ ان کے معدے کے سرطان کی وجہ سے کئی آپریشن ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنی شخصیت کو ماضی میں لگنے والے زخموں کو چھپا کر مسکرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ چند انتہائی اہم سوالات کے جوابات تو انہیں بھی درکار ہیں۔

ایمیل بحر ہند میں فرانس کے سمندر پار علاقے لا ری اُونیون میں ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ چھ برس کی عمر میں وہ یتیم ہو گئے تو ان کی والدہ نے ایمیل اور ان کی دو بہنوں کی مناسب پرورش کے لیے بہت محنت کی۔ 1954ء میں جب ایمیل کی عمر نو سال تھی، تو پیرس میں فرانسیسی حکومت نے انہیں ان کے خاندان سے زبردستی علیحدہ کر کے انہیں اپنی سرپرستی میں لے لیا۔


وجہ فرانس سے نقل مکانی کا ازالہ

اس اقدام کی وجہ یورپ میں فرانسیسی ریاست کے ان علاقوں کو دوبارہ آباد کرنے کا ایک حکومتی پروگرام بنا تھا، جہاں کی آبادی نقل مکانی کی وجہ سے بہت کم ہو گئی تھی۔ ان بچوں کو فرانس لا کر لیموزیں کے علاقے میں کروز جیسے اضلاع میں آباد کیا گیا تھا۔ آج فرانس میں ایسے شہروں کے لیے 'کروز کے بچے‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔


تب لا رےاُونیون میں ان بچوں کے والدین کو پیرس حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان کی نئی نسل فرانس میں اچھی تعلیم حاصل کرے گی اور بہتر سرکاری سہولیات کے ساتھ اس کا مستقبل بھی روشن ہو جائے گا۔ رےاُونیون بحر ہند کا ایک جزیرہ ہے اور وہاں پر ایمیل کی طرح کے تقریباﹰ دو ہزار بچے ایسے تھے، جنہیں 1960ء اور 1980ء کی دہائیوں میں جبری طور پر فرانس بھیج دیا گیا تھا۔

ڈراؤنا خواب


ایمیل اور ان کی طرح کے بہت سے دیگر بچوں کے لیے یہ جبری نقل مکانی ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی۔ پہلے ان بچوں کو لا رے اُونیون کے جزیرے پر ہی ایسی کئی مختلف اجتماعی رہائش گاہوں میں رکھا گیا، جن کی دیواریں چار چار میٹر اونچی تھیں۔ تب ان بچوں کو نا تو ان رہائش گاہوں سے باہر جانے کی اجازت تھی اور نا ہی وہ اپنے ہی وطن میں اپنے اہل خانہ سے مل سکتے تھے۔

وہاں سے نو سال بعد ان بچوں کے ان کے نئے مستقبل کی طرف سے سفر کا آغاز اس طرح ہوا کہ انہیں ملک بدر کر کے فرانس بھیج دیا گیا۔ فرانس میں انہیں وہ تعلیم نا ملی، جس کا پیرس حکومت نے وعدہ کیا تھا، بلکہ ان سے زرعی شعبے میں مزدوروں کا کام لیا جانے لگا۔


'غلاموں کا سا سلوک‘

ایمیل بینوآ ہوآرو نے ایک تفصیلی انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم دن رات کام کرتے تھے، جانوروں کی دیکھ بھال اور کھیتوں سے آلو نکالنا۔ مقامی کسانوں کو بتایا گیا تھا کہ ہم بہت خطرناک تھے، قاتل اور چور۔ وہ ہم پر اعتماد نہیں کرتے تھے اور ہم سے غلاموں جیسا سلوک کرتے تھے۔ انہیں جب بھی موقع ملتا، وہ ہمیں مارنے پیٹنے سے بھی نہیں ہچکچاتے تھے۔‘‘


کرب ناک یادیں

اکیس سال کی عمر میں جب ایمیل فرانسیسی مسلح افواج میں خدمات انجام دے چکے تھے، تو یہ تب ہوا کہ وہ ریاستی سرپرستی میں زندگی گزارنے والا کوئی فرد نا رہے۔ اپنی زندگی کے اکیس برس گزارنے کے بعد ہی انہیں یہ موقع ملا تھا کہ وہ اپنی زندگی، مصروفیات، پیشے اور دیگر امور میں جیسے چاہیں فیصلے کریں۔ ایمیل نے محنت جاری رکھی اور مختلف عمارات کو اندر باہر سے رنگ کرنے والے ایک پیشہ ور کاریگر بن گئے۔


جب ایمیل کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا اختیار مل گیا، تو انہوں نے اپنے خاندان کا پتا چلانے کی کوشش کی۔ انہیں علم ہوا کہ ان کی والدہ کا تو انتقال ہو چکا تھا۔ تب ایمیل اتنے دکھی تھے کہ انہوں نے اپنے ماضی کی تکلیف دہ یادوں کو ایک بار پھر اس طرح دفن کرنے کا عزم کیا، کہ وہ دوبارہ کبھی ان کے بارے میں سوچیں گے بھی نہیں۔

موجودہ عمر 75 برس


پھر چند سال بعد ایمیل کی ملاقات ماری جو ٹریئر سے ہوئی، تو اس نوجوان خاتون نے اندازہ لگا لیا کہ ایمیل کو اس کے ماضی کے حوالے سے بہت سی مشکلات کا سامنا تھا۔ ماری جو ٹریئر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''مجھے اس کے بہت تلخ مزاج ہونے کی وجہ سمجھ آ گئی تھی۔ پہلی بار جب ایمیل نے مجھے اپنی کہانی سنائی تھی، تو ہم دونوں رو پڑے تھے۔‘‘ اس کے بعد دونوں کا تعلق اتنا گہرا ہو گیا کہ انہوں نے شادی کر لی۔ ماری جو ٹریئر کہتی ہیں، ''اب ایمیل کی عمر 75 برس ہے۔ میری خواہش ہے کہ وہ کم از کم بھی دس پندرہ برس تو اور زندہ رہے۔ اور میں چاہتی ہوں کہ اس کی زندگی کے یہ باقی سال صرف اور صرف خوشی کے سال ہوں۔‘‘

'چوری شدہ‘ بچے


2014ء میں فرانسیسی پارلیمان نے ایک قرارداد منظور کی تھی، جس میں یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ عشروں پہلے رےاُونیون کے ان ہزاروں 'چوری شدہ‘ بچوں کے حوالے سے فرانس پر اخلاقی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اس بارے میں فرانسیسی حکومت کے متعلقہ محکمے کے کسی اہلکار نے ڈی ڈبلیو کی طرف سے درخواست کے باوجود کوئی باقاعدہ انٹرویو تو نا دیا مگر یہ کہا گیا کہ مختلف حکومتی محکمے ان 'مسروقہ‘ بچوں کے حوالے سے کئی طرح کے اقدامات کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

'ہمیں لوٹا گیا‘


ایمیل کی طرح فرانس میں آج بھی سینکڑوں کی تعداد میں ایسے شہری موجود ہیں، جو برسوں قبل ایمیل ہی کی طرح بحر ہند کے اس جزیرے سے فرانس لائے گئے تھے۔ ان کا ساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟ وہ جب خود سے یہ سوال پوچھتے ہیں، تو کسی کو کوئی جواب نہیں ملتا۔ ایمیل کہتے ہیں، ''حکومت کو ہمیں مالی ازالہ ادا کرنا چاہیے۔ یہ بالکل مناسب مطالبہ ہے۔ اس لیے کہ ہمیں لوٹ لیا گیا تھا۔ ہمیں نقصان پہنچایا گیا۔ اگر میں آج کسی کو لوٹ لوں، تو کیا مجھے سزا نہیں ملے گی؟‘‘

لیکن ساتھ ہی ایمیل یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے کوئی بھی زر تلافی ان کے بچپن اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ زندگی کو تو واپس نہیں لا سکے گا۔ وہ کہتے ہیں، ''اس ظلم کی تلافی تو ممکن ہی نہیں جن میرے اور میرے جیسے دیگر بچوں کے ساتھ کیا گیا۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کسی انسان کی ایک ٹانگ کاٹ دی جائے۔ وہ کٹی ہوئی ٹانگ تو کبھی واپس نہیں آئے گی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔