اسلام آباد میں خاکروبوں کے استحصال کی کہانی

سبزے اور ہریالی کی وجہ سے اسلام آباد کا شمار دنیا کے خوبصورت دارالحکومتوں میں ہوتا ہے۔ ہریالی تو قدرت کا عطا کردہ تحفہ ہے لیکن شہر کو گندگی سے پاک کرنے کا سہرا ہمارے خاکروبوں کے سر ہے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

ان خاکروبوں میں سے تقریباً 99 فیصد کا تعلق مسیحی برادری سے ہے۔ تپتی ہوئی گرمیاں ہوں یا سخت سردیاں، موسلا دھار بارشیں ہوں یا طوفان، موسم کی سختیوں سے بے نیاز یہ خاکروب صبح چھ بجے ہی اسلام آباد کی گلیوں میں صفائی کرنے پہنچ جاتے ہیں۔

ماسوائے اتوار کی تعطیل کے ہمارے تمام تہواروں بشمول عیدالفطر، عیدالاضحیٰ، 14 اگست، 23مارچ، عاشورہ حتیٰ کہ یکم مئی، جو کہ مزدوروں کا عالمی دن ہے، کو بھی یہ خاکروب اپنی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔


مسلم تہواروں میں ان کی ڈیوٹی مزید سخت اور دورانیہ بڑھا دیے جاتے ہیں تاکہ ہماری پھیلائی ہوئی گندگی یہ خاکروب رات گئے تک سمیٹ سکیں۔ تقریباﹰ ایک درجن مسیحی آبادیاں اسلام آباد کے مختلف سیکٹروں میں آباد ہیں لیکن ایچ نائن میں ان کی سب سے بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔

لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ ان کی زیادہ تر آبادیوں میں بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی ناپید ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے گھروں میں چھوٹے سولر پینل لگا رکھے ہیں اور جو اس 'عیش‘ کی متحمل نہیں وہ بیچارے آج بھی لالٹین کی روشنی اور لکڑیوں پر کھانا پکانے پر مجبور ہیں۔


تصور کریں کہ اکیسویں صدی میں ہمارے خاکروب بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔ ان خاکروبوں کی ذاتی طرز زندگی کے ساتھ ساتھ معاشی صورتحال بھی دگر گوں ہے۔ جارُوب کَشی کا پیشہ، جو پاکستان میں شروع سے مسیحیوں اور ہندوؤں کی شودر ذات سے منسوب کر دیا گیا تھا، اب ان کو اس پیشے سے بھی نکال کر دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔

اسلام آباد میں سی ڈی اے کا قیام 1960ء میں عمل میں آیا اور شہر کی صفائی کے لیے مسیحی خاکروبوں کو بھرتی کیا گیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، جس طرح شہر کی آبادی اور حجم میں اضافہ ہوا تو کچھ سیکٹروں میں 1994ء میں ٹھیکیداری نظام رائج کر دیا گیا، جس سے مسیحی برادری کی بڑی تعداد پرائیویٹ خاکروبوں کے طور پر اس پیشے سے وابستہ ہو گئی۔


2016ء میں، جب اسلام آباد میں میئر سسٹم لاگو ہوا تو خاکروبی پیشہ تقریباً پورے شہر میں ٹھیکیداری نظام کے تحت چلنے لگا۔ چونکہ ٹھیکیدار کسی کے ماتحت نہیں ہوتے، اسی لیے وہ سی ڈی اے سے ٹھیکہ حاصل کرنے کے بعد لوگوں کو کم تنخواہوں پر ملازم رکھ لیتے ہیں۔

پرائیویٹ ملازم ہونے کی صورت میں ان کا استحصال مزید آسان ہو جاتا ہے۔ کرسمس اور ایسٹر جیسے بڑے تہواروں پر بھی انہیں نا کوئی الاؤنس دیا جاتا ہے اور نا ہی تین دن کی تعطیل۔ بلکہ ان خاکروبوں کو مسلسل یہ فکر بھی کھائے جاتی ہے کہ کوئی حادثہ یا ناگہانی ہونے کی صورت میں غیر حاضری پر ان کی تنخواہ نا کاٹ لی جائے۔


ان کے نصیب میں نا سالانہ چھٹی ہے نا ہی بیماری الاؤنس جبکہ کچے ٹھیکیداری نظام ملازمت سے نکالے جانے کا دھڑکا بھی ہر لمحہ جان نہیں چھوڑتا۔

اکثر خاکروب ملازمت کے دوران حادثات کا شکار ہوتے رہے ہیں اور اس پر بھی انہیں کسی قسم کی سہولت مہیا نہیں کی جاتی، ماسوئے اس کے کہ اس ملازم کی جگہ اس کے گھر کے ہی کسی فرد کو بھرتی کر لیا جاتا ہے۔


خاکروبوں کی تنخواہ بڑھنے کے امکانات تو دور کی بات بلکہ اکثر اوقات تنخواہوں میں تاخیر ایک معمول کی بات ہے۔ تنخواہ میں تاخیر پر اگر یہ احتجاج کریں تو دہاڑی سے نام کاٹنے کی دھمکی مل جاتی ہے کہ خاموشی سے کام کیے جاؤ۔ مہنگائی کے اس دور میں جہاں امیر اور متوسط طبقہ بھی پریشان ہے تو اندازہ لگائیں کہ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کا کون پرسان حال ہو گا؟

اوپر سے سونے پر سہاگہ کہ اس ٹھیکیداری نظام کے تحت ملازمت کرنے والے سینکڑوں خاکروبوں کو سی ڈی اے نے نکالنے کا فیصلہ سنا دیا ہے اور پکے نئے ملازم بھرتی کر لیے ہیں۔ اس کے خلاف یہ سینکٹروں مرد و خواتین پچھلے بیس دن سے سینیٹیشن دفتر کے آگے جھلستی ہوئی گرمی میں احتجاج کر رہے ہیں لیکن کوئی شنوائی اب تک نہیں ہوئی نا کسی مین اسٹریم میڈیا نے اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔


المیہ تو یہ ہے کہ یہ طبقہ کسی سے کوئی توقع بھی کیسے کرےکیونکہ کسی بھی حکومت نے ان خاکروبوں کے لیے، جو کچے ٹھیکیداری سسٹم میں ملازم ہیں، کوئی بھی بہتری کا اقدام نہیں کیا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ وہ پیشہ ہے، جس کی وجہ سے ہمارے علاقے قابل رہائش رہتے ہیں کیونکہ خاکروب ہی ابلتے ہوئے گٹر اور کچرے سے بھری گلیوں کو صاف کرتے ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے ہمارے شہر کی گلیوں کو بلاناغہ صاف شفاف کرنے والے ہزاروں مسیحی خاکروب بہن بھائیوں کا ہمیں احسان مند ہونا چاہیے۔ اگر آج سی ڈی اے کسی بھی وجہ سے ان سینکڑوں خاکروبوں کو ملازمت سے فارغ کر دیتا ہے تو کتنے خاندان اس پیشے سے جڑی اپنی روزی سے محروم ہو جائیں گے۔


خاکروبوں کا انتظامیہ سے شکوہ ہے کہ ایک یہی پیشہ اس ملک میں ان لیے مخصوص ہے اور اب وہ بھی ان سے چھینا جا رہا ہے۔ ان خاکروبوں کے بھی کچھ معصوم سے خواب ہیں کہ ان کی آنے والی نسلیں پڑھ لکھ کر کسی بہتر پیشے سے منسلک ہوں۔ اس پیشے سے وابستہ ان اقلیتوں کی نا صرف داد رسی کی جانا چاہیے بلکہ ان کو تمام بنیادی سہولیات میسر ہونی چاہییں، جو دیگر شعبوں کے ملازمین کو فراہم کی جاتی ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */