پاکستانی سیاست، اصل قیمت یہ یتیم بچے ادا کریں گے

جب ہر طرف شور برپا تھا، عمران خان اور دیگر پی ٹی آئی ارکان کو بحفاظت نکالا جا رہا تھا تو یہ بچے اپنے لہولہان باپ کو پکار رہے تھے۔ شاید انہیں علم ہی نہ تھا کہ ان کے باپ کے ساتھ کیا ہوا ہے۔

پاکستانی سیاست، اصل قیمت یہ یتیم بچے ادا کریں گے
پاکستانی سیاست، اصل قیمت یہ یتیم بچے ادا کریں گے
user

Dw

عمران خان پر فائرنگ کے بعد افرا تفری پھیل جاتی ہے۔ سبھی لوگ خوف سے بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ ابتسام نامی لڑکا حملہ آور کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس دوران حملہ آور کے قریب کھڑا معظم بھی اسے پکڑنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اسے گولی لگتی ہے اور وہ وہاں ہی زمین پر منہ کے بل گر پڑتا ہے۔ اب وہاں ایک ساکن لاش پڑی ہے اور اس کے اردگرد بے چینی سے گھومتے تین معصوم سے چھوٹے بچے ہیں۔

جب ہر طرف شور مچا ہوا تھا، خان صاحب اور دیگر پی ٹی آئی اراکین کو بحفاظت نکالا جا رہا تھا تو یہ بے سہارا بچے اپنے لہولہان باپ کو پکار رہے تھے۔ ان بچوں کو نہیں علم کہ ان کے باپ کے ساتھ کیا ہوا ہے، وہ اچانک کیوں زمین پر لیٹ گیا ہے، اس کے جسم سے خون کیوں نکل رہا ہے اور وہ کیوں ان کی آواز پر اٹھ نہیں رہا؟


تین بھائی ایک دوسرے کو پریشان نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور پھر پریشانی میں اپنے باپ کو پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان تین معصوم بچوں کی آواز ان کا باپ معظم گوندل تو نہیں سن سکتا تھا لیکن حیرت کی بات ہے کہ ان کی چیخیں ابھی تک کسی بڑے سیاسی لیڈر کے کان تک بھی نہیں پہنچیں۔

میڈیا کو ریٹنگ مل رہی ہے اور وہ حملہ آور کو پکڑنے کی کوشش کرنے والے ابتسام کے دھڑا دھڑ انٹریوز کیے جا رہے ہیں، بے شک کرنے بھی چاہئیں کیوں کہ اس نے ایک اچھا کام کیا ہے۔ اللہ خان صاحب کو سلامت رکھے، ان کی صحت کے حوالے سے سعودی عرب سے لے کر کینیڈا کی حکومت تک پریشان ہیں۔


لیکن پوری سیاست اور اقتدار کے کھیل میں شامل کوئی شخص ان تین بچوں کا بھی تو سوچے، کسی کے دلِ بے رحم میں یہ خیال بھی تو آئے کہ ان تین بچوں کا کیا قصور تھا، ان کا اور ان کی والدہ کا کیا بنے گا؟ ان کو کس جرم کی سزا ملی اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟

حکومت کا اقتدار چلتا رہے، وہ کل کے واقعے کی اپنی تشریحات اور الزام تراشیوں کے جوابی کھیل میں شامل ہو چکی ہے۔ عسکری حلقے ایسے واقعات کو 'کولیٹرل ڈیمیج‘ کہہ کر اپنے ضمیر مطمئن کر لیتے ہیں۔ سیاست کا کھیل ہمیشہ کی طرح چلتا رہے گا، عمران خان دوبارہ کنٹینر پر سوار ہو جائیں گے، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نئے عزم سے پریس کانفرنسوں کے 'دھندے‘ میں مشغول ہو جائیں گے۔ ٹی وی اینکرز دوبارہ سیاسی دیوتاؤں کی رائے جاننے کے لیے لائٹیں آن کر لیں گے، میڈیا والوں کی گاڑیاں کسی دوسرے شہر کی سڑکوں پر فراٹے بھرنا شروع ہو جائیں گی۔


اس سارے قصے میں، جو ایک بات ہو گی، وہ یہ ہے کہ کل کی طرح ان بچوں کی چیخیں کسی کے کان تک نہیں پہنچ پائیں گی۔ صرف یہ تین بچے ہی اپنے باپ کی قبر کے گرد بے چینی سے گھومتے رہیں گے۔ ان لاشوں اور ان قبروں پر پاؤں رکھ کر اقتدار میں پہنچنے والوں کو کبھی خیال تک نہیں آئے گا کہ وہ معظم گوندل کون تھا اور اس کے تین بچے اب کس حال میں ہیں؟

معظم گوندل کی نماز جنازہ آج بروز جمعہ ادا کر دی گئی ہے۔ چھتیس سالہ معظم کویت میں اے سی ٹکنیشن کے طور پر کام کرتے تھے اور تین ہفتے پہلے ہی چھٹی پر پاکستان آئے تھے اور وہ اپنے بچوں کی کفالت کرنے والے شخص تھے۔


کیا کسی نے سوچا ہے کہ ان بچوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا ان بچوں کو کبھی یہ جواب ملے گا کہ ان کے والد کی جان کیوں ضائع ہوئی؟ کیا کبھی یہ اس واقعے کو فراموش کر سکیں گے؟ یہ جب بھی اپنے والد کے بارے میں سوچیں گے تو کیا انہیں فقط گولیوں کی آواز سنائی دے گی؟

یقین مانیے یہ تینوں بچے ساری عمر اپنے والد کو گلے لگانے کو ترس جائیں گے۔ یہ دوبارہ کس کی انگلی پکڑ کر بازار جائیں گے؟ آپ ایک منٹ کے لیے فقط یہ سوچیں کہ آپ اپنے بچوں کو نہلا دھلا کر، اچھے کپڑے پہنا کر باہر بازار لائے ہیں اور ان کے آنکھوں کے سامنے آپ کو قتل کر دیا جاتا ہے۔


ذرا سوچیے آپ کے بچوں پر اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے؟ سیاست اور فوج میں شامل سبھی کو کچھ نہ کچھ مل جائے گا، اگر نہیں ملے گا تو ان بچوں کو اپنا والد نہیں ملے گا اور ان بچوں کی ماں کو اپنا شوہر نہیں ملے گا۔ کل کو اگر ان بچوں نے کھانے کے لیے روٹی کی بھیک بھی مانگی تو ان کی آواز کسی سیاسی، حکومتی یا فوجی لیڈر کے کان تک نہیں پہنچنی۔

آج صدر پاکستان عارف علوی صاحب نے معظم گوندل کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ ہو سکتا ہے کل پرسوں کسی دوسرے لیڈر کو بھی افسوس کا اظہار کرنے کا خیال آئے اور وہ بھی ایک سطری بیان جاری کرتے ہوئے اپنے ضمیر کو مطمئن کر لے۔ یہ سیاسی ریلیاں دوبارہ شروع ہو جائیں گی لیکن پاکستانی سیاست اور بدامنی کی اصل قیمت یہ تین بچے ادا کریں گے، جن کو چار دن بعد سبھی بھول جائیں گے۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */