بڑھتی ہوئی آبادی اور سکڑتے ہوئے قبرستان

آبادی میں بے تحاشا اضافے، بے ہنگم رہائشی اسکیموں اور منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے پاکستان کے کئی بڑے شہروں اور چھوٹے قصبوں میں مسلم اور غیر مسلم شہریوں کے لیے قبرستان کی جگہیں سکڑتی جارہی ہیں۔

بڑھتی ہوئی آبادی اور سکڑتے ہوئے قبرستان
بڑھتی ہوئی آبادی اور سکڑتے ہوئے قبرستان
user

Dw

واضح رہے کہ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے زیادہ ہوگئی ہے لیکن کئی ناقدین کے خیال میں اس آبادی کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت نے مؤثر شہری منصوبہ بندی نہیں کی، جس کے تحت پارک اسکول، ہسپتال، قبرستان اور دوسرے رفاہی کاموں کے لیے جگہ ہی چھوڑی جاتی ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان مردم شماری کے دوران بڑی تعداد میں آباد غیر ملکیوں کو شمار نہیں کرتا جو مردم شماری میں تو نظر نہیں آتے لیکن وہ ملک کے بڑے شہروں میں آباد ہیں اور قبرستان سمیت تمام شہری ساری سہولیات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔


لاہور سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن کاشف نواب کا کہنا ہے کہ مسیحی آبادی کے لیے قبرستان انتہائی ناکافی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یوحنا آباد کے علاقے میں دو قبرستان ہیں اور اس آبادی میں ہزاروں کی تعداد میں مسیحی آباد ہیں۔ یہ دونوں قبرستان بھر چکے ہیں اور حکومت نئے قبرستان کے لیے جگہ مختص نہیں کر رہی، جس کی وجہ سے بہت مسائل ہو رہے ہیں۔‘‘

کاشف نواب کے مطابق لاہور میں پانچ گورا قبرستان ہیں اور یہ زیادہ تر کینٹ علاقوں کے قریب آباد تھے۔ شروع میں یہ قبرستان آبادی سے بہت دور ہوا کرتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شہری مراکز کے قریب ہو گئے۔ کچھ قبرستان اب جیل روڈ کے قریب ہیں اور ان کے اردگرد کی زمینوں کی قیمتیں آسمان سے بات کر رہی ہے۔ اس لیے زمین پر قبضہ کرنے والوں نے بھی قبرستان کی زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے، جس کی وجہ سے قبرستان میں تدفین کے لیے مناسب جگہ دستیاب نہیں ہے۔


انہوں نے حکام سے مطالبہ کیا کہ مسیحی آبادی کو مردم شماری میں میں درست انداز میں درج کیا جائے۔ ''مسئلہ یہ ہے کہ ہماری آبادی کو درست انداز میں درج نہیں کیا جاتا۔ جب ہماری آبادی کو درست انداز میں درج نہیں کیا جاتا تو شہری منصوبہ بندی کرتے وقت ہماری کم آبادی کو پیش نظر رکھا جاتا ہے اور حقیقی آبادی کو پیش نظر رکھا نہیں جاتا۔ اسی لیے ہمیں جتنی سہولیات ملتی ہیں بشمول قبرستان وہ ہماری آبادی کے تناسب سے انتہائی ناکافی ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں مسائل ہوتے ہیں۔‘‘

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ترقیاتی امور کے ماہر عامر حسین کا کہنا ہے کہ آبادی میں بے تحاشا اضافہ، لینڈ گریبنگ، شہری منصوبہ بندی کا فقدان اور زمینوں کی بندر بانٹ کی وجہ سے قبرستان کی جگہ کم پڑ تی جا رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' آپ ملک کے تمام بڑے شہروں میں چلے جائیں وہاں قبرستان آپ کو بھرے ہوئے ملیں گے۔ کچھ قبرستانوں میں تو ایک ہی قبر میں کئی کئی مردوں کو دفنا دیا گیا ہے۔ کراچی میں قبرستان اور اس کے ارد گرد کی زمینوں پر قبضے ہوئے ہیں۔ یہی صورت حال لاہور اور دوسرے بڑے شہروں میں ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو آبادی کا بڑھنا ہے لیکن دوسرا بڑا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ رہائشی اسکیمیں بے ہنگم طریقے سے ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی ہیں۔‘‘


عامر حسین کے بقول حکومت کو چاہیے کہ وہ رہائشی اسکیموں کو اس بات کا پابند کرے کہ مسجد، پارک اور اسپتال کے ساتھ ساتھ قبرستان کے لیے بھی جگہ مختص کریں۔

عامر حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لینڈ ایکوزیشن ایکٹ سو سال سے زیادہ پرانا ہو چکا ہے لیکن حکومت ابھی تک اسی قانون کو چلا رہی ہے۔ '' ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون کو ختم کیا جائے اور بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر قوانین پر نظرثانی کی جائے۔ اس کے علاوہ فوری طور پر قبرستان اور اس کے ارد گرد کے علاقوں سے قبضہ ختم کرایا جائے اور فی کس زمین کا ٹکڑا مختص کے رواج کو فروغ دیا جائے، جو بین الاقوامی معیار ہے۔‘‘


منصوبہ بندی کے اس ماہر کے خیال میں اس کے علاوہ حکومت کو ور ٹیکل بلڈنگز کی طرف بھی جانا چاہیے۔ ''رہائش کے لیے لیے گھروں کے رقبے کی حد بندی بھی ہونی چاہیے۔ ہمارے ملک میں ایک طرف پوش علاقوں میں ایک کنال کے بنگلے پر دو یا تین افراد رہے ہیں، تو دوسری طرف محنت کش علاقوں میں پانچ مرلے کے مکان میں بائیس بائیس افراد رہے ہیں۔ بہت سارے لوگوں نے فارم ہاؤسز کے نام پر ملک کے طول و عرض پر ہزاروں ایکڑز زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے جبکہ نامور رہائشی اسکیموں نے بھی سرکار سے اہم اور قیمتی زمین اونے پونے داموں خرید کر اس پر کمرشل اور رہائشی منصوبے بنائے ہوئے ہیں۔‘‘

عامر حسین تجویز کرتے ہیں زمین کو احتیاط سے استعمال کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ علاقے تفریحی مقامات اور دیگر شہری سہولیات جیسے کہ قبرستان ہیں اس کے لیے چھوڑے جائیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔