پاکستان میں احمدی ڈاکٹر کا قتل: ’نوجوان قاتل کو شدت پسندی کس نے سکھائی‘

پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں ایک سولہ سالہ نوجوان نے فائرنگ کر کے احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو قتل اور تین دیگر کو زخمی کر دیا۔

علامتی تصویر بشکریہ ڈیلی بنگلہ دیش
علامتی تصویر بشکریہ ڈیلی بنگلہ دیش
user

ڈی. ڈبلیو

یہ واقعہ جمعہ کے روز اس وقت پیش آیا جب احمدی مسلم عقیدے سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے افراد اپنے گھر میں عبادت کر رہے تھے۔ پولیس کے مطابق اس دوران دروازے پر دستک ہوئی جس پر ڈاکٹر طاہر باہر نکلے اور گھر کے باہر موجود نوجوان نے ان پر فائرنگ کر دی۔

اس واقعے میں 31 سالہ ڈاکٹر طاہر احمدشہید ہو گئے۔ فائرنگ کی آواز سن کر دیگر افراد باہر نکلے تو حملہ آور نے ان پر بھی فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں طاہر کے والد اور دو دیگر عزیز زخمی ہو گئے۔ مقتول ڈاکٹر طاہر احمد کے والد کی حالت بھی انتہائی تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔


مقامی پولیس کے ایک اہلکار ملک شمشیر کے مطابق حملہ آور ٹین ایجر ہے اور اسے حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ملک شمشیر کے مطابق حملہ آور نے فائرنگ کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ احمدی اسلام کی توہین کرتے ہیں۔ تاہم اس عمومی تاثر کے علاوہ کوئی مخصوص واقعہ اس حملے کا محرک نہیں تھا۔

'احمدی اپنے گھر میں بھی محفوظ نہیں‘


جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا، ''پاکستان میں احمدی اپنے گھر کے اندر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ وہ اپنی مذہبی فرائض گھر کی چار دیواری میں بھی ادا نہیں کر سکتے۔ تحفظ نہ ہونے کے سبب انہیں گھر کی دہلیز پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ (ان کے خلاف) نفرت انگیز مہم بلا روک ٹوک جاری ہے۔‘‘

پاکستان کی پارلیمان نے سن 1974 میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا اور تب سے مسلسل انہیں نفرت پر مبنی پراپیگنڈا اور پرتشدد کارروائیوں کا سامنا ہے، تاہم حالیہ عرصے کے دوران اس رجحان میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔ رواں برس کے دوران پاکستان میں اب تک پانچ احمدی قتل کیے جا چکے ہیں۔


سوشل میڈیا پر ردِ عمل

پاکستانی سوشل میڈیا صارفین زیادہ تر تحریک لبیک کے رہنما خادم حسین رضوی کی وفات کے بارے میں بحث کرتے دکھائی دیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ صارفین نے ملک میں احمدیوں کے خلاف بڑھتے پرتشدد واقعات کا ذکر بھی کیا۔


صحافی سبوخ سید نے ننکانہ صاحب میں پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے لکھا، ''اس بچے کو یہ شدت پسندی کس نے سکھائی، جسے ابھی پہلے کلمے کا ترجمہ بھی نہیں آتا ہو گا۔‘‘

جبران ناصر نے لکھا، ''اس نوجوان کے قتل میں وہ تمام سیاسی قائدین اور آمر شامل ہیں جنہوں نے اقتدار کی خاطر یا خود تکفیریت اور مذہبی منافرت کو سیاسی ہتھیار بنایا یا ان ہتھیاروں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔ ہم اب ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں ظالم کی وفات پر سرعام اور مظلوم کے قتل پر چھپ کر افسوس کرنا پڑتا ہے۔‘‘


انسانی حقوق کے متعلق پاکستان کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے اس واقعے سمیت احمدیوں کے قتل کے حالیہ واقعات کی مذمت کرتے ہوئے لکھا، ''بطور حکومت ہماری ذمہ داری عمل کرنا ہے اور ہم نے کی ہے۔ تازہ واقعے کا ملزم پولیس کی حراست میں ہے اور قانون کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے۔ حکومت کی ذمہ داری تمام شہریوں کا تحفظ کرنا ہے۔‘‘

اس ٹوئیٹ کے جواب میں جماعت احمدیہ کے ترجمان سلیم الدین نے لکھا، ''آخر کار حملوں کی مذمت کرنے کے لیے آپ کا شکریہ۔ گزشتہ دو برسوں اور خاص طور پر پچھلے چار ماہ سے میں حکومت کو ہر سطح پر بے سود خبردار کرتا رہا ہوں۔ میں انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کے بارے میں آپ سے ملاقات کے لیے کی گئی درخواست پر دو برس بعد آج بھی جواب کا منتظر ہوں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔