چین کے بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبے میں باضابطہ طور پرشمولیت کا ارادہ رکھتے ہیں، طالبان

طالبان انتظامیہ نے چینی صدر شی جن پنگ کے ’بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو‘ میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اس امر کا اعلان افغانستان کے قائم مقام وزیر تجارت نے کیا۔

چین کے بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبے  میں باضابطہ طور پرشمولیت کا ارادہ رکھتے ہیں، طالبان
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبے میں باضابطہ طور پرشمولیت کا ارادہ رکھتے ہیں، طالبان
user

Dw

افغانستان میں طالبان انتظامیہ نے باضابطہ طور پر چینی صدر شی جن پنگ کے 'بیلٹ اینڈ روڈ انفرا اسٹرکچر انیشی ایٹیو‘ میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سلسلے میں مذاکرات کے لیے ایک تکنیکی ٹیم چین روانہ کریں گے۔ یہ اہم اعلانات جمعرات 19 اکتوبر کو افغانستان کے قائم مقام وزیر تجارت نے کیا۔

طالبان کی جانب سے 2021 ء میں دوبارہ حکومت سنبھالنے کے فوراﹰ بعد سے ہی چین نے طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ گزشتہ ماہ چین کابل کے لیے اپنا سفیر مقرر کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔ اس طرح چین ان ممالک کی صف میں شامل ہو گیا، جنہوں نے کابل متعینہ اپنے سابقہ سفیروں کی بحالی کا اعلان کیا یا ان کی ''چارج ڈی ا فیئر‘‘ یعنی سفارتی مشن کے سربراہ کے طور پر تقرری کی تاہم ان تقرریوں کا مطلب افغانستان کو قانونی طور پر تسلیم کرنا نہیں ہوتا۔


قائم مقام افغان وزیر تجارت حاجی نورالدین عزیزی نے بیجنگ میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے اختتام کے ایک روز بعد روئٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا،''ہم نےچین سے درخواست کی کہ وہ ہمیں چین پاکستان اقتصادی راہداری اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو کا حصہ بننے کی اجازت دے۔‘‘

پاکستان ''اکنامک کوریڈور‘‘ دراصل افغانستان کے پڑوس میں چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے تحت ایک بہت بڑے 'فلیگ شپ سیکشن‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ افغان قائم مقام وزیر تجارت کا کہنا تھا کہ ان کی انتظامیہ ایک تکنیکی ٹیم چین بھیجے گی، جو اس چینی اقدام میں کابل کی شمولیت کی راہ میں پائی جانے والی رکاوٹوں اور مسائل کو سمجھنے اور ان کی وضاحت کی کوشش کرے گی۔


معدنیات سے مالا مال ملک افغانستان چین کو بہت کچھ پیش کر سکتا ہے۔ بہت سی چینی کمپنیاں بشمول ''میٹالرجیکل کور آف چائینا لمیٹیڈ‘‘ (ایم سی سی) موجودہ طالبان انتظامیہ اور مغرب نواز سابقہ افغان حکومت سے بھی مختلف پروجیکٹس کے بارے میں بات چیت کرتی رہی ہیں۔ تانبے کی کانوں سے متعلق بہت بڑے ممکنہ منصوبوں کے بارے میں بھی بات چیت ہو چُکی ہے اور یہ کمپنیاں پہلے سے ہی افغانستان میں کام کر رہی ہیں۔ افغانستان کے قائم مقام وزیر تجارت عزیزی کے بقول،'' دنیا بھر میں سرمایہ کاری کرنے والے چین کو چاہیے کہ افغانستان میں بھی سرمایہ کاری کرے۔ ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی چین کو ضرورت ہو سکتی ہے جیسے کہ لیتھیم، تانبا اور لوہا۔‘‘ عزیزی نے کہا ہے کہ افغانستان اس وقت ہمیشہ سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔

قائم مقام وزیر تجارت عزیزی نے کہا ہے کہ افغانستان اس وقت ہمیشہ سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری کے لیے تیار ہے۔ ایم سی سی کے ساتھ مذاکرات میں تاخیر کے بارے میں ان سے کیے گئے ایک سوال کے جواب میں عزیزی کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ مذکورہ معدنیات کی کانیں ایک تاریخی مقام کے نزدیک واقع ہیں۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہا،''چینی کمپنی نے بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہے اور ہم چین کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘


سرمایہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی کی صورتحال اب بھی تشویش ناک ہے۔ عسکریت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ غیر ملکی سفارت خانوں اور چینی اہلکاروں میں مقبول ایک ہوٹل کو دہشت گردی کا نشانہ بنا چُکا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔