ہر تیسرے جرمن مرد کے لیے خواتین کے خلاف تشدد ’قابل قبول’

پلان انٹرنیشنل جرمنی نامی تنظیم کی طرف سے کیے گئے سروے میں پتہ چلا ہے کہ33 فیصد مردوں کے خیال میں خواتین کے خلاف تشدد قابل قبول ہے۔

ہر تیسرے جرمن مرد کے لیے خواتین کے خلاف تشدد ’قابل قبول’
ہر تیسرے جرمن مرد کے لیے خواتین کے خلاف تشدد ’قابل قبول’
user

Dw

صنفی مساوات کی مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ایک تہائی مرد خواتین کے خلاف تشدد کو قابل قبول سمجھتے ہیں۔ ایک نئے سروے کے مطابق 18سے 35 برس عمر کے 33 فیصد مردوں کا خیال ہے کہ اگر ان کی خاتون ساتھی کے ساتھ تکرار کے دوران کبھی کبھار "ان کا ہاتھ بے قابو" ہوجائے تو یہ "قابل قبول" ہے جب کہ 34 فیصد جواب دہندگان نے اعتراف کیا کہ ماضی میں انہوں نے خواتین کے خلاف تشدد کا رویہ اپنایا تھا۔

بچوں کے لیے فلاحی کام کرنے والے ادارے پلان انٹرنیشنل جرمنی نے یہ ملک گیر سروے کیا تھا جس میں 18سے 35برس کے عمر کے 1000 مرد اور 1000خواتین سے سوالات پوچھے گئے۔ صنفی مساوات کے علم بردار ایک جرمن گروپ فیڈرل فورم مین سے تعلق رکھنے والے کارسٹن کازنر نے کہا کہ یہ نتائج "حیران کن"ہیں۔


انہوں نے فنکے میڈیا گروپ کو بتایا،"یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کہ سروے میں شامل مردوں میں سے ایک تہائی خواتین کے خلاف جسمانی تشدد کو معمول کے مطابق سمجھتے ہیں۔ اس رویے کو فوری طورپر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔"

وفاقی پولیس کے اعداد و شمارکے مطابق جرمنی میں سال 2021 میں 115000سے زائد خواتین پارٹنر تشدد کا شکار ہوئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک گھنٹے میں 13خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ مذکورہ سال میں 301خواتین کو ان کے موجودہ ساتھی یا سابق ساتھی نے قتل کردیا۔


ہم جنس پرستی کی عوامی نمائش "پریشان کن"

سروے میں جرمن مرد اور خواتین کے درمیان صنف اور جنسیت کے حوالے سے دیگر تصورات کا بھی جائزہ لیا گیا۔ سروے میں حصہ لینے والے 52فیصد مردوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کردار رشتے میں بنیاد فراہم کرتا ہے اور ان کے ساتھی کو گھر چلانے پر زیادہ توجہ دینی چاہئے۔

سروے کے مطابق 48فیصد جواب دہندگان نےہم جنس پرستی کی عوامی نمائش پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے "پریشانی" محسوس کرتے ہیں۔ پلان انٹرنیشنل جرمنی کی ترجمان الیگزنڈر شیچر نے فنکے میڈیا گروپ کو بتایا کہ "روایتی منفی کردار اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں گہرے طورپر پیوست ہیں۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔