لاہور یونیورسٹی میں لڑکی نے اپنے عاشق کو کیا پروپوز، دونوں کو دکھایا باہر کا راستہ
لاہور کی ایک یونیورسٹی کی طرف سے ایک طالب علم جوڑے کو اس لیے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا کیونکہ لڑکی نے کھلے عام لڑکے کو شادی کی پیشکش کی تھی۔ ان کی ویڈیو ملک بھر میں وجہ بحث بنی ہوئی ہے۔
چند روز قبل پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو انتہائی تیزی سے وائرل ہوئی جس میں ایک نوجوان طالبہ دیگر طالب علموں کی موجودگی میں اپنے گھٹنوں پر جھک کر اپنے ساتھی طالب علم کو شادی کی پیشکش کرتی ہے اور نوجوان کی طرف سے قبولیت کے بعد اسے پھولوں کا گلدستہ پیش کرتی اور پھر اس سے بغلگیر ہوتے ہوئے دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ واقعہ یونیورسٹی آف لاہور میں رواں ہفتے پیش آیا۔
یونیورسٹی کا رد عمل
یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد یونیورسٹی آف لاہور کے رجسٹرار کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ اس معاملے کی چھان بین کے لیے جمعہ 12 مارچ کو ڈسپلنری کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں مذکورہ جوڑے کو بھی بلایا گیا تھا تاہم وہ کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اسی باعث کمیٹی نے دونوں طلبہ کو یونیورسٹی سے خارج کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کا یونیورسٹی میں داخلہ ممنوع کر دیا گیا ہے۔
یونیورسٹی کے اس فیصلے کو سوشل میڈیا پر سراہنے والے تو بہت کم ہیں مگر اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنانے والوں کی اکثریت ہے۔ پاکستان پیپپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی بہن بختاور بھٹو زرداری نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں اس فیصلے کو احمقانہ اور مضحکہ خیز قرار دیا۔
یہی کام لڑکا کرتا تو یہی رد عمل ہوتا؟
وسیم اکرم کی اہلیہ شنیرا اکرم نے بھی یونیورسٹی آف لاہور کی طرف سے اس جوڑے کو یونیورسٹی سے خارج کرنے کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اپنی ایک ٹوئیٹ میں شنیرا اکرم نے لکھا، ''ہم نے ابھی چند روز قبل ہی خواتین کا عالمی دن منایا ہے، اور اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک صحفہ اول کی یونیورسٹی نے ایک ایسی نوجوان خاتون کو یونیورسٹی سے نکال دیا ہے جس نے اعتماد اور خود پر انحصار کرتے ہوئے اپنے ساتھی طلبہ کے تحفظ میں ایک مرد کو شادی کی پیشکش کی، ہم ایسا کر کے کس طرح کی مثال قائم کر رہے ہیں؟‘‘
شنیرا اکرام ایک اور ٹوئیٹ میں لکھتی ہیں، ''ہمیں اس پر بات کرنی چاہیے۔ ہم کیوں پریشان ہو رہے ہیں؟ کیا یہ حقیقت سے نظریں چرانا ہے؟ یونیورسٹی کے اندر کسی کو شادی کی پیشکش کرنا یا اس بات پر کہ ایسا ایک خاتون نے کیا؟ اگر یہی کام طالب علم لڑکا کرتا تو کیا اسی طرح کا شور و غوغا ہوتا؟
بچوں سے زیادتی کرنے والوں کا دفاع مگر...
انسانی حقوق کے کارکن اور وکیل جبران ناصر نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا، ''ایک ایسے ملک میں جہاں چائلڈ میرج اور چھوٹی بچیوں کے مذہب کی تبدیلی کے نام پر بچوں سے زیادتی کرنے والوں کا دفاع اور ان کا تحفظ کیا جاتا ہے، ہم دو بالغ افراد کی طرف سے ایک دوسرے کے لیے محبت کے اظہار پر پریشان ہو رہے ہیں۔ ہم نے اپنی نام نہاد اقدار کو گِرا کر روزانہ کا مذاق بنا دیا ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔