کیبل کارحادثے کے بعد اب طالب علموں کا مستقبل کیا ہوگا؟

صوبہ خیبر پختونخوا میں 1200 فٹ کی بلندی پر ایک کیبل کار میں قریب 15 گھنٹے پھنسے رہنے کے بعد بچائے گئے آٹھ افراد میں سے چھ طالب علم تھے۔ تاہم اب اُنہیں محفوظ ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔

کیبل کارحادثے کے بعد اب طالب علموں کا مستقبل کیا ہوگا؟
کیبل کارحادثے کے بعد اب طالب علموں کا مستقبل کیا ہوگا؟
user

Dw

صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے بٹگرام میں کیبل کار میں پھنسے تمام آٹھ افراد کو بچا لیا گیا تھا۔ اس حادثے کے متاثرین کو جس ڈرامائی آپریشن کے ذریعے بچایا گیا اُس نے گرچہ بین الاقوامی میڈیا کی بھرپور توجہ تو حاصل کر لی تاہم اس واقعے نے پاکستان کے لاکھوں بچوں کو درپیش تعلیمی حصول میں مشکلات کے بارے میں بھی از سر نو چند بنیادی سوالات کو جنم دیا ہے۔

متعدد رپورٹوں سے پتا چلا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے دور دراز پہاڑی علاقوں کے لوگ وادی کو عبور کرنے کے لیے اس طرح کی کیبل کار کا استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ اب اس حادثے کے بعد کیبل کار کے استعمال پر سرکار نے پابندی عائد کرنے کا اعلان تو کر دیا تاہم اُن بچوں کا کیا بنے گا، جو اپنے علاقوں میں اسکول اور کالج کی عدم دستیابی کے سبب دور دراز کا سفر کرنے کے لیے اسی ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں؟


گزشتہ ہفتے پیش آنے والے اس واقعے میں بچائے گئے طالب علموں میں شامل ابرار احمد اپنی تعلم جاری رکھنا چاہتا ہے۔ اُس نے اس حادثے میں بچ جانے کے بعد اپنی اولین تحریر میں لکھا، ''انشاءاللہ، میں اپنی پڑھائی جاری رکھوں گا، لیکن ہمارے اسکول کا راستہ بہت طویل اور خطرناک ہے۔ بعض اوقات مجھے اسکول پہنچنے میں دیر ہو جاتی ہے کیونکہ یہ صبح ساڑھے آٹھ بجے لگتا ہے۔‘‘ احمد باٹنگی پشتو گورنمنٹ ہائی اسکول کے پہلے سال میں ہے۔ اُس کے بقول، ''کیبل کار یا چیئر لفٹ ضروری ہے، لیکن اب ہم اس سے بہت خوفزدہ ہیں۔‘‘

کیبل کار کا یہ واقعہ انتہائی دردناک ہونے کے ساتھ ساتھ اُس آزمائش کا کھلا ثبوت بھی ہے جس سے لاکھوں پاکستانی باشندے خاص طور پر بچے گزر رہے ہیں۔ بچوں کے بنیادی حقوق میں سے ایک تعیلم کے حصول کے موزوں مواقعے بھی ہیں۔ انتہائی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، غربت، موسمیاتی شدت، ناگہانی آفات، بدترین یا نہ ہونے کے برابر ٹرانسپورٹ کی سہولیات وغیرہ بچوں اور نوجوانوں کو اسکول کالج اور اعلیٰ تعلیمی مدارج تک پہنچنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔


یہی وہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر میں اسکولوں میں بچوں کی حاضری کی کم ترین شرح کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں 4 تا 16 سال کی درمیانی عمر کے قریب 23 ملین بچے جو ملک کے بچوں کی کُل تعداد کا 44 فیصد بنتا ہے، اسکول نہیں جاتے۔ یہ اعداد و شمار ورلڈ بینک اور حکومت پاکستان کی طرف سے فراہم کردہ ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق بچیوں اور کم عمر لڑکیوں کی صورتحال مزید ابتر ہے۔

پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں نوجوانوں کی بڑی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے معاشی استحکام کے لیے تعلیم کو فروغ دینا ناگزیر ہے۔ یہی عوامل ہیں جو اس جنوبی ایشیائی ملک کے لیے نہایت پریشان کن ہیں۔ تجزیہ کاروں اور ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس کے معاشرتی اثرات غریب دیہی علاقوں میں عسکریت پسند گروپوں کے مضبوط ہونے کی شکل میں سامنے آ چُکے ہیں۔


دریں اثناء ضلع بٹگرام کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سید حماد حیدر نے کیبل کار واقعے کے بعد ایک بیان میں کہا، ''ہمارے علاقے کے بچوں کے لیے دور دراز کے اسکولوں تک پہنچنا بہت مشکل ہےاور ہماری حکومت نے گزشتہ چند سالوں میں اس سلسلے میں سرمایہ کاری کی ہے۔ بہت سے جدید خیالات کو آگے لایا گیا ہے اور اختراعی کوششیں کی گئی ہیں۔‘‘

سید حماد حیدر کا مزید کہنا تھا، ''ریموٹ لرننگ اور کمیونٹی پر مبنی کلاسز، خاص طور پرلڑکیوں کے لیے ترجیحی بنیادوں پر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، جبکہ تمام علاقے کی کیبل کاروں کو چیک کیا جا رہا ہے۔‘‘ بٹگرام کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرنے اعلان کیا ہے کہ حفاظتی خطرات پائے جانے کی صورت میں کسی بھی کیبل کار کو بند کر دیا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔