ہندوستان میں کیا اب ہارن کی جگہ گیت بجيں گے؟

جنوبی ايشيائی ملکوں ميں ہارن کی آوازيں بڑا مسئلہ ہيں۔ ايک بھارتی وزير کہتے ہیں کہ روايتی ہارن کی جگہ گانے اور موسیقی ہونی چاہیے۔ آگے نکلنے کے ليے اگر کوئی لتا کے گانے والا ہارن بجائے، تو کيسا لگے گا؟

ہارن کی جگہ اب بجيں گے گيت
ہارن کی جگہ اب بجيں گے گيت
user

Dw

بھارت، پاکستان اور جنوبی ايشيا کے کئی ملکوں ميں سڑکوں پر گاڑيوں کے ہارن کی آوازيں معمول کی بات ہے۔ تمام بڑے شہروں ميں ڈرائيورز بلا وجہ ہارن بجاتے ہيں، جو نہ صرف آواز کی آلودگی کا باعث بنتا ہے بلکہ شہريوں کے ليے بھی درد سر ثابت ہوتا ہے۔ ليکن اب ايسا دکھائی ديتا ہے کہ بھارتی وزير ٹرانسپورٹ نے اس مسئلے کا حل نکال ليا ہے۔ ان دنوں بھارت ميں ايک قانون زير غور ہے جس کے تحت سڑکوں پر روايتی ہارن ممنوعہ قرار ديے جا سکتے ہيں اور ان کے متبادل کے طور پر موسيقی کے آلات کی آوازيں اور دھنيں بجا کريں گی۔ يہ آوازيں شہريوں کے ليے تکليف نہيں بلکہ مسرت کا باعث بنيں گی۔

بھارتی وزير برائے ٹرانسپورٹ نتين گڈکاری نے مقامی ميڈيا سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ''ميں اس پر غور کر رہا ہوں۔ جلد ہی ميں ايسا قانون تشکيل دوں گا، جس کے تحت بھارت ميں چلنے والی تمام گاڑيوں کے ہارن موسیقی کے مقامی آلات سے نکلنے والی دھنوں پر مبنی ہوں گے، جو سننے والوں کے دل کو بھائيں گی۔‘‘ گڈکاری نے کہا کہ وہ ايمبولينس اور پوليس کی گاڑيوں کے سائرن بھی بدلوانے کا ارادہ رکھتے ہيں۔ موجودہ سائرن کی جگہ وہ ايسے سائرن چاہتے ہيں، جنہيں سن کر دل کو تسلی ہو۔


آوازوں کی آلودگی کے معاملے ميں بھارت کا شمار سرفہرست ملکوں ميں ہوتا ہے۔ رکشہ، ٹرک، بسيں، موٹر سائيکليں اور نجی گاڑياں ۔۔۔ سڑکوں پر ہر شخص ايک دوڑ ميں لگا رہتا ہے اور ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی منزل تک جلد سے جلد پہنچے۔ نہ صرف بھارت بلکہ بيشتر جنوبی ايشيائی ملکوں میں بنيادی ڈھانچہ کمزور ہے اور سڑکوں وغيرہ کے نيٹ ورکس بھی زيادہ معياری نہيں۔ ٹريفک جام ہر بڑے شہر ميں معمول کی بات ہے۔

ايسے ميں ہارن کا بلا روک ٹوک استعمال کيا جاتا ہے۔ مغربی ممالک ميں ہارن صرف ہنگامی صورت ميں استعمال کی اجازت ہے۔ ليکن ايشيائی معاشروں ميں اوور ٹيک کرنا ہو، کسی پر غصہ نکالنا ہو، آگے نکلنا ہو يا کچھ بھی کرنا ہو، تو ہارن بجا کر بات ہوتی ہے۔


عالمی ادارہ صحت کے مطابق آواز کی آلودگی سننے کی صلاحيت متاثر کرنے کے علاوہ امراض قلب، ذہنی دباؤ اور ديگر کئی طبی مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔