چین: کووڈ پالیسی کے ناقد ایک ہزار سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطل

چین میں حکومت کی طرف سے ملک کی کووڈ پالیسی پر اعتراض کرنے والے افراد کے ایک ہزار سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کر دیے گئے۔ یہ اقدام کورونا پابندیوں میں نرمی اور ملک کو دوبارہ کھولنے کے دوران کیا گیا۔

چین: کووڈ پالیسی کے ناقد ایک ہزار سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطل
چین: کووڈ پالیسی کے ناقد ایک ہزار سے زائد سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطل
user

Dw

چین کے ایک مقبول سرکاری سوشل میڈیا پلیٹ فارم سینا وائبو نے اپنے بیان میں اس کا اعتراف کیا کہ خلاف ورزیوں کے بارہ ہزار آٹھ سو چون کیسز بشمول مختلف ماہرین، اسکالرز اور میڈیکل ورکرز پر حملوں کا نوٹس لیا گیا ہے۔ اس کارروائی کے نتیجے میں ایک ہزار ایک سو بیس اکاؤنٹس پر عارضی یا مستقل پابندیاں عائد کر دیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ چینی حکمران کمیونسٹ پارٹی، کووڈ انیس کے مہلک عارضے کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے سخت لاک ڈاؤن کے نفاذ کے سلسلے میں زیادہ تر انحصار میڈیکل برادری پر ہی کر رہی تھی۔ اس کا مقصد چین کی جابرانہ حد تک سخت لاک ڈاؤن پالیسیوں، قرنطینہ کے احکامات اور عمومی کورونا ٹیسٹنگ کے ذریعے بڑے پیمانے پر جانچ جیسے اہم اقدامات کا دفاع کرنا تھا۔ ان میں سے تقریباً تمام سختیوں کوپچھلے مہینے اچانک ہٹا لیا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین میں کورونا کے نئے کیسز اتنی بڑی مقدار میں دوبارہ سامنے آنے لگے کہ ملکی طبی صلاحیت اور وسائل پر بہت بڑا بوجھ پڑنا شروع ہو گیا۔

آزادی رائے پر پابندی

چین کی کمیونسٹ پارٹی براہ راست تنقید کی ہر گز اجازت نہیں دیتی اور اس نے آزادی اظہار پر سخت پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ سرکاری سوشل میڈیا پلیٹ فارم سینا نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا، ''کمپنی تحقیقات میں اضافے کا سلسلہ جاری رکھے گی اور ہر قسم کے غیر قانونی مواد کی صفائی اور ہم آہنگی پیدا کرنے، نیز صارفین کی اکثریت کے لیے دوستانہ کمیونٹی ماحول کی فراہم کو ممکن بنانے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘


چین میں عوام کے اندر شدید مایوسی اور غصے کا سبب بننے والے عوامل میں سر فہرست بیجنگ حکومت کے کورونا پابندیوں سے متعلق انتہائی سخت قواعد و ضوابط اور خاص طور سے عام سفری پابندی بنی۔ انہیں اقدامات کے خلاف سب سے زیادہ زور و شور سے مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری تھا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے چینی باشندوں نے حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ خاص طور سے وہ چینی باشندے جو ہفتوں اپنے گھروں میں بند رہے، انتہائی مشتعل نظر آ رہے تھے۔ معاشرے میں غصے اور بے چینی پھیلانے کا سبب ایسے واقعات بھی بنے جن میں ہر وہ باشندہ جس میں کورونا ٹیسٹ کے مثبت نتیجے کے امکانات پائے جاتے ہوں یا کسی باشندے کا کسی کووڈ پوزیٹیو شخص سے رابطہ ہوا ہو، اُسے طبی معائنے کے لیے فیلڈ ہسپتال میں محدود کر دیا جاتا جہاں غذا اور حفظان صحت کی ابتر صورتحال پائی جاتی ہے۔

سخت ترین اقدامات میں نرمی کی وجہ

چین میں سخت لاک ڈاؤن اور پابندیوں کا معاشرے پر جو اقتصادی یا مالی بوجھ پڑنا شروع ہوا اُس نے بالاآخر چینی باشندوں کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ ممکنہ طور پر بیجنگ حکومت نے اسی لیے اپنے سخت اقدامات میں فوری طور سے نرمی لانے کا فیصلہ کیا۔


کورونا پالیسیوں میں ان تبدیلیوں کے طور پرایک اہم فیصلہ یہ کیا گیا کہ کورونا پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والے اور قرنطینہ کے ضوابط توڑنے والوں افراد کے خلاف مجرمانہ الزامات نہیں لگائے جائیں گے۔ اس سلسلے میں ہفتہ سات جنوری کو پانچ سرکاری محکموں نے نوٹس جاری کیا۔ نیز یہ اعلان بھی کیا گیا کہ زیر حراست افراد کو رہا کیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنے والوں کے ضبط کیے گئےاثاثے واپس کر دیے جائیں گے۔

چین کے ایک روزنامے ''چائنہ ڈیلی‘‘ کی ویب سائٹ نے ان تازہ ترین حکومتی فیصلوں کے بارے میں رپورٹ شائع کی جس کے مطابق یہ اقدامات مذکورہ پابندیوں اور سختیوں کے معاشرے کے رویوں پر پڑنے والے منفی اثرات کے تفصیلی جائزے کے بعد کیے گئے ہیں۔ مزید یہ کہ چین اب کورونا وبا کی نئی صورتحال کے مطابق اس کے پھیلاؤ کے خلاف روک تھام اور کنٹرول کی پالیسی وضع کرے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔