دہلی کی چھوٹی سی یہودی برادری نے اپنے رسم و رواج کو کیسے زندہ رکھا ہے؟

دہلی میں دس سے بھی کم خاندانوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی یہودی برادری اور ان کی ایک عبادت گاہ بھی ہے۔ ربی ایزاکیل آئزک اس برادری کو ایک ساتھ جمع کرنے اور یہودی روایات کو زندہ رکھنے کا کام کرتے ہیں۔

دہلی کی چھوٹی سی یہودی برادری نے اپنے رسم و رواج کو کیسے زندہ رکھا ہے؟
دہلی کی چھوٹی سی یہودی برادری نے اپنے رسم و رواج کو کیسے زندہ رکھا ہے؟
user

Dw

دسمبر کی ایک سرد رات میں لوگوں کا ایک اجتماعی گروپ وسطی نئی دہلی میں واقع یہودہ حیام کی عبادت گاہ میں ہنوکا منانے کے لیے جمع ہوتا ہے۔ اس میں بھارتی یہودی کمیونٹی کے ساتھ ہی امریکہ سے آنے والا یہودی خاندان کا ایک جوڑا اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے بعض عقیدت مند بھی موجود تھے۔

نیویارک سے تعلق رکھنے والی ایک یہودی خاتون ریچل نے چند برس قبل تعلیم کے سلسلے میں بھارتی دورے کے دوران اس سیناگاگ (یہودی عبادت گاہ) کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''اب میں اپنے دو بچوں کے ساتھ چھٹیوں میں یہاں واپس آئی ہوں۔ چونکہ یہ ہنوکا ہے، اس لیے میں نے سوچا کہ انہیں یہاں لانا دلچسپ ہو گا۔''


اس تقریب میں بعض سرکاری افسران اور سپریم کورٹ کے وکلاء نے بھی شرکت کی اور جشن کے لیے شمعیں روشن کیں۔ ربی ایزکیل آئزک مالیکر نے دعائیہ جلسہ شروع کرنے سے قبل حاضرین سے کہا، ''بھارت ان چند ممالک میں سے ایک ہے، جہاں یہودیوں کو کبھی ستایا نہیں گیا۔ اسی لیے میں ہمیشہ کہتا ہوں، میں پہلے بھارتی ہوں اور پھر یہودی۔''

بھارتی یہودی کون ہیں؟

بھارت کی یہودی برادری کو مغربی بھارت کے بنی اسرائیلیوں، مغربی بنگال کے بغدادی یہودیوں اور کیرالہ کے کوچین یہودیوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ شمال مشرقی بھارت کے بنی میناشے اور آندھرا پردیش کے بینی ایفرایمز یعنی تیلگو زبان بولنے والے یہودی بھی اس میں شامل ہیں۔


مالیکر کا کہنا ہے کہ بھارت میں یہودی کمیونٹیز مقامی ثقافت کے ساتھ مربوط ہو گئی ہیں اور علاقائی رسم و رواج، روایات، لباس کے انداز اور زبان کو بھی اپنا لیا ہے۔ وہ اکثر اپنے قصبوں اور گاؤں کے ناموں کی بنیاد پر کنیت بھی اختیار کرتے ہیں۔

سن 1940 کی دہائی میں ہندوستان میں یہودیوں کی آبادی 50,000 کے قریب تھی۔ اس کے بعد سے بہت سے یہودی اسرائیل، برطانیہ، امریکہ، کینیڈا جیسے دیگر ممالک کو منتقل ہو چکے ہیں۔ بھارت میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق صرف 6000 یہودی ہی آباد ہیں۔ لیکن ایک چھوٹی سی کمیونٹی ہونے کے باوجود یہودیوں کا بھارتی معاشرے اور اس کی ثقافت میں اپنا ایک نمایاں حصہ ہے۔


سن 1800 میں ڈیوڈ ساسون ایک بزنس مین اور مخیر حضرات کے طور پر مشہور تھے۔ سن1924 میں پیدا ہونے والے جے ایف آر جیکب بھارتی فوج میں خدمات انجام دیں اور سن 1971 کی بھارت-پاکستان جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

یہودی روایات کو زندہ رکھنے کی کوشش

نئی دہلی میں 10 سے بھی کم یہودی خاندانوں پر مشتمل ایک چھوٹی سی برادری ہے۔ ان میں زیادہ تر سفارت کار اور دوسرے ممالک سے آنے والے تارکین وطن کے ساتھ ساتھ وہ بھارتی یہودی بھی شامل ہیں، جو شہر میں منتقل ہوئے۔ نئی دہلی کی یہودہ حیام عبادت گاہ کا افتتاح سن 1950 کی دہائی میں ہوا تھا اور مالیکر اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ یہی شہر کی بڑی عبادت گاہ ہے۔ مالیکر خود بھی مغربی شہر پونے سے دہلی آ کر آباد ہوئے تھے۔


ایک سرکاری ملازمت انہیں دارالحکومت دہلی لے آئی اور بغیر کسی معاوضے کے سن 1980 کی دہائی میں اس عبادت گاہ کی دیکھ بھال کا کام شروع کیا۔ عبادت گاہ کے قریب ہی یہودیوں کا ایک قبرستان اور ایک لائبریری بھی واقع ہے، جس میں عبرانی زبان کی کلاسز ہوتی ہیں۔

مالیکر نے یہودی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے جدید معاشرے کے ساتھ چلنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اب تک 15 بین المذاہب شادیاں کروائی ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی ساتھی کو اپنے شریک حیات کا مذہب تبدیل کرنے کو نہیں کہتے ہیں۔


انہوں نے بتایا کہ یہودیوں کی مقدس کتاب، ''تورات پڑھنے کے لیے آپ کو 10 آدمیوں کی ضرورت ہے۔ میں نے مکمل طور پر اس کام سے گریز کیا ہے، اور جو بھی اس میں شرکت کرنا چاہے اسے، اس کی اجازت ہے۔'' وہ مزید کہتے ہیں، ''وقت کے مطابق ہمیں اپنا رویہ بدلنا چاہیے۔ نہ صرف یہودیت میں بلکہ تمام مذاہب میں ایسا ہونا چاہیے۔''

معروف اوڈیسی ڈانسر شیرون لووین بھی نئی دہلی کی یہودی برادری کا حصہ ہیں۔ امریکی شہری شیرون لووین کئی برسوں سے دارالحکومت دہلی میں رہتی ہیں۔ انہوں نے بتایا، ''میں امریکہ میں مہاجرت کرنے والے ایک تارک وطن کی پوتی ہوں، جنہیں جان کے خطرے والی سامیت دشمنی کی وجہ سے ایک صدی سے زیادہ عرصے قبل مشرقی یورپ میں اپنے گھر بار چھوڑ کر امریکہ میں پناہ لینی پڑی تھی۔''


وہ مزید کہتی ہیں، ''بھارت میں تقریبا 50 برس تک رہنا بہت خوشی کی بات ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ ملک قبل مسیح دور سے پہلے سے بھی مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ یہودیوں کا گھر رہا ہے، یہاں تک کہ سن 1930 اور 40 کی دہائیوں میں یورپ سے فرار ہونے والوں کو بھی اس نے محفوظ پناہ گاہ فراہم کی ہے۔''

تاہم وہ یہ بھی کہتی ہے کہ، ''زیادہ تر بھارتی مغربی باشندوں کو عیسائی ہی سمجھتے ہیں۔ جب بھی میرے سامنے یہ بات آتی ہے، تو میں یہ واضح کرتی ہوں کہ میں ایک یہودی ہوں، عیسائی نہیں ہوں۔'' مالیکر کے خاندان کے بھی کئی افراد بیرون ملک، اسرائیل، آسٹریلیا اور کینیڈا منتقل ہو چکے ہیں۔ تاہم وہ اپنے وطن سے دور نہیں جانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ''اسرائیل میرے دل میں ہے لیکن بھارت میرے خون میں ہے۔''

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔