شاہدہ نے گھر چھوڑا یا گھر نے شاہدہ کو؟

شاہدہ رضا اگرچہ کھیل کے حلقوں میں جانا پہچانا نام تھا مگر اسے قومی سطح پر مشہور ہونے کے لیے مرنا پڑا اور وہ بھی وطن کی مٹی سے ہزاروں کلومیٹر پرے بحیرہ روم کے پانی میں۔

شاہدہ نے گھر چھوڑا یا گھر نے شاہدہ کو؟
شاہدہ نے گھر چھوڑا یا گھر نے شاہدہ کو؟
user

Dw

شاید میں کچھ غلط کہہ گیا۔ شاید شاہدہ مرنا نہیں چاہتی تھی۔ غالباً ایک معیاری و محفوظ زندگی جینا چاہتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ ملک میں اس کی عزت نہیں تھی اور عزت بھی وہ جو اس نے خود کمائی تھی۔ حالانکہ وہ محصور شیعہ ہزارہ کمیونٹی کی ایک عورت تھی۔ پھر بھی اس نے ہمت نہیں ہاری اور وہ کر دکھایا جو کرتے ہوئے اچھے اچھوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔

یعنی وہ بیک وقت فٹ بال اور ہاکی کا ستارہ تھی۔ ہاکی آرمی کی ویمن ٹیم کی طرف سے اور فٹ بال صوبہ بلوچستان کی ٹیم کی طرف سے۔ شاہدہ کے کمرے میں آج بھی بیسیوں کپ اور ٹرافیاں سجے ہیں۔ یادگاری بیجز سے بھرے ہاکی اور فٹ بال کے جیکٹس سلیقے سے وارڈ روب میں ٹنگے ہیں۔


شاہدہ کا تین برس کا ٹانگوں سے معذور بچہ نہیں جانتا کہ اس کی ماں ایسے ٹور پر چلی گئی ہے جو لامتناہی ہے۔ تھوڑا بڑا ہو لے تو اس بچے کو کوئی نہ کوئی ضرور بتائے گا کہ اس کی ماں اس کی زندگی بنانے کے جوئے میں اپنی زندگی ہار گئی۔

مگر اس بچے کو بہت زیادہ بڑا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ یا تو وہ کسی ٹارگٹ کلر کے نشانے پر ہو گا یا پھر اپنی والدہ کی طرح نامعلوم سفر پر نکل کھڑا ہو گا۔ پھر بھی میری دعا ہے کہ وہ ایک طویل طبعی باعزت اور محفوظ عمر جئے۔


اگر شاہدہ رضا آرمی یا وفاقی یا صوبائی حکومت سے اپیل کرتی تو شاید ان میں سے کوئی شاہدہ کے بیٹے کا بیرونِ ملک علاج کا انتظام بھی کر دیتا۔شاہدہ بحیثیت فٹ بالر اور ہاکی پلیئر کئی بیرونی دورے بھی کر چکی تھی۔وہ قانونی طور پر بھی باہر جا کے اپنا مستقبل بنانے کی کوشش کر سکتی تھی۔

تو پھر اس نے ایسا کیوں کیا کہ وہ ترکی تک تو ویزا لے کر گئی اور پھر وہاں سے یورپ میں داخلے کے لیے غیر قانونی تارکینِ وطن کو اٹلی لے جانے والی کشتی میں سوار ہو کے ساحل پر پہنچنے سے پہلے پہلے ہی اپنے ہمراہ اپنے بچے کا مستقبل لے کے سمندر کی گہرائی میں اتر گئی۔


جس دن شاہدہ جنوبی اٹلی کے ساحل کے قریب ڈوب رہی تھی اس سے لگ بھگ چوبیس گھنٹے پہلے اسی بحیرہ روم کے دوسرے کنارے پر تارکینِ وطن سے ٹھسا ٹھس بھری اٹلی جانے والی ایک غیر قانونی کشتی لیبیا کے ساحل پر ڈوب گئی۔کشتی میں گنجائش سے تین گنا زائد انسان بھرے ہوئے تھے۔

انہی میں گوجر خان کا ایک نیم متوسط کاروباری نوجوان اسد نعیم اور اس کا ایک کزن بھی تھا۔ دونوں نے ایجنٹ کو تینتالیس لاکھ روپے دیے تاکہ وہ انہیں بحفاظت یورپ میں اتار دے۔ اسد نعیم بچ گیا مگر اس کا عم زاد ڈوب گیا۔ البتہ اسد جیسے ہزاروں نوجوان ہیں جو زندہ بچنے کے باوجود دوبارہ خطرہ مول لیتے ہیں اور ناکامی کی صورت میں تیسری بار بھی جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔


ملک چھوڑنے والے ایک شیعہ ہزارہ نوجوان کی ماں کے بقول ”اس سے پہلے کہ میرا جوان بیٹا کسی ٹارگٹ کلر یا بم کا نشانہ بن جائے۔ اگر وہ بیرونِ ملک نئی زندگی جینے کی کوشش میں مچھلیوں کی خوراک بھی بن جائے تو مجھے اتنا دکھ نہیں ہو گا۔‘‘

اس ہزارہ نوجوان کے برعکس گوجر خان کے اسد نعیم کا تعلق اکثریتی فرقے اور اکثریتی قومیت سے ہے۔ اسے ہزارہ اور احمدی کمیونٹی کی طرح سنگین عدم تحفظ کا احساس بھی درپیش نہیں۔ پھر بھی اسد نعیم کو یقین ہے کہ ''جتنی محنت میں یہاں کر رہا ہوں اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ یورپ میں اتنی ہی محنت کروں تو مستقبل بن جائے گا۔‘‘


قومی سطح کی کھلاڑی شاہدہ رضا کو یہ تو یقین تھا کہ وہ اپنی ٹیم کو جتا سکتی ہے مگر یہ یقین ہر گز نہیں تھا کہ ریاست اسے کبھی ہارنے نہیں دے گی۔ حکومتِ پاکستان کے اپنے ریکارڈ کے مطابق دو ہزار اکیس میں دو لاکھ چھبیس ہزار پاکستانیوں نے قانونی طریقے سے ملک چھوڑا۔ دو ہزار بائیس میں پونے آٹھ لاکھ پاکستانی قانونی طور پر یہاں سے چلے گئے۔ گویا ایک ہی برس میں ملک چھوڑنے والوں کی تعداد تین گنا بڑھ گئی۔ ان میں بانوے ہزار ڈاکٹر، نرس، انجینیر، آئی ٹی پروفیشنلز اور نجی کارپوریٹ سیکٹر کے ملازم تھے۔

لگ بھگ اتنی ہی بڑی تعداد میں نوجوان غیر قانونی راستوں سے جانی خطرات مول لے کر ملک چھوڑ گئے۔ان میں سے کئی اپنے پسندیدہ ملک میں اترنے میں کامیاب ہو گئے۔ سینکڑوں راستے میں مارے گئے۔لگ بھگ تیرہ ہزار پاکستانی اس وقت پچانوے ممالک میں بند ہیں۔ ان میں سے نصف قیدی سعودی اور اماراتی جیلوں میں ہیں۔


اور جو اس ملک کی قسمت کے فیصلے کر رہے ہیں۔ان کا تعلق بھلے کسی بھی حساس و غیر حساس قومی ادارے، جماعت یا خانوادے سے ہو ۔ان کا دوسرا گھر بھی پاکستان سے باہر ہے اور بہت سوں کے تو خاندان یا بچے بھی محفوظ ممالک میں ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ ایک روز یہ فیصلہ ساز بھی ملک چھوڑ جائیں۔ مگر جب تک وہ مسلط ہیں تب تک جانے کتنے لاکھ لوگ ان سے تنگ آ کے یہ ملک یا جہان چھوڑ چکے ہوں گے۔ ” کوئی اپنی زمین نہیں چھوڑتا جب تک اس کا گھر شارک کا جبڑہ نہ بن جائے‘‘ ( ایک محاورہ )۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔