ايمسٹرڈيم کی جسم فروش خواتين وبا کے دور ميں پيٹ کيسے پال رہی ہيں؟

کورونا وبا کے باعث صحت سے متعلق قوائد و ضوابط کی وجہ سے ايمسٹرڈيم کا ریڈ لائٹ ایریا اور يہ صنعت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ حکومتی امداد کی منتظریہ خواتين گزر بسر کے ليے خطرناک طرز عمل اختيار کرنے پر مجبور

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

ڈی. ڈبلیو

جينيٹ ايمسٹرڈيم کی ايک تنگ و تاريک گلی کی طرف اشارہ کر کے کہتی ہے،''اب ان گليوں ميں کوئی نہيں دکھتا۔‘‘ ہالينڈ کے شہر ايمسٹرڈيم کے مشہور زمانہ ريڈ لائٹ ڈسٹرکٹ ميں جينيٹ سيکس پارٹياں منعقد کرتی تھی۔ ايسی پارٹياں جہاں وہ اور اس کی سہيلياں شرکت کرنے والوں کے ساتھ رقم کے عوض انفرادی يا گروپ کی صورت ميں جنسی عوامل کيا کرتی تھيں۔ اب ايسے تمام ہی اجتماعات پر پابندی عائد ہے۔ ديگر جسم فروشوں کی طرح اس نے بھی متعلقہ ادارے ميں بے روزگاری الاؤنس کے ليے درخواست دے رکھی ہے مگر ابھی تک کوئی جواب موصول نہيں ہوا۔ نوبت يہاں تک آن پہنچی ہے کہ مکان کے کرايے کے ليے اب جينيٹ غير قانونی طور پر کام کر رہی ہے۔

جينيٹ نے 'ايسکورٹ‘ کے طور پر اپنے گھر پر ہی کام شروع کر ديا ہے۔ صارفين عموماً ايسے لوگ ہيں، جنہيں وہ عرصے سے جانتی ہے۔ ''ميں حفاظتی وجوہات کی بنا پر زيادہ لوگوں سے نہيں ملتی۔‘‘ جينيٹ مسکراتے ہوئے کہتی ہے کہ اگر وہ چاہے، تو دن کے چوبيس گھنٹے کام جاری رکھ سکتی ہے۔ اس کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ وبائی مرض کے باوجود، اب بھی لوگوں کی ايک بہت بڑی تعداد جنسی تسکين کے ليے رقم کے عوض جسم فروشوں کی خدمات حاصل کرنے کے ليے تيار ہيں۔ اس کے بقول پابنديوں اور لاک ڈاون کا يہ مطلب نہيں کہ لوگوں کی جنسی عمل کی خواہش مر گئی ہے۔


ہالينڈ ميں سیکس انڈسڑی نئے کورونا وائرس کی وبا سے بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ حکومت نے ہنگامی امداد کا ايک پروگرام تو لانچ کيا ہے مگر کئی لوگ اس ميں اندارج نہيں کرا سکے۔ کچھ کو درخواست جمع کرانے ميں مشکلات کا سامنا ہے۔ ايسے ميں کئی لوگ غير قانونی طريقوں سے کام کر رہے ہيں، جس نے نہ صرف انہيں بلکہ ان کے اہل خانہ اور صحت عامہ کو بھی خطرات لاحق ہيں۔

ڈچ نيشنل انسٹيٹيوٹ فار پبلک ہيلتھ نے جسم فروشی اور قحبہ خانوں پر کم از کم ستمبر تک پابندی عائد کر رکھی ہے۔ 'پراسٹيٹيوسن انفارميشن سينٹر‘ کی نمائندہ اور خود بھی ايک جسم فروش مارسکا بتاتی ہيں کہ يہ پابندی ان کے پيشے سے وابستہ افراد کے ليے تباہ کن ہے۔ مارسکا کے مطابق کئی جسم فروش خواتين نے ايمرجنسی فنڈنگ کے ليے درخواست بھی نہيں جمع کرائی کيونکہ وہ اس بارے ميں شکوک و شبہات ميں مبتلا ہيں کہ وبا کے بعد حکام ان کے ڈيٹا کا کيا کريں گے۔ ''جسم فروشی کی گو کہ يہاں اجازت ہے مگر اس پر جرم اور بدنامی کے کالے بادل چھائے ہوئے ہيں۔‘‘


ہالينڈ ميں اسی وجہ سے کئی جسم فروش خواتين اپنا اندارج مختلف پيشوں سے کراتی ہيں۔ مارسکا خود ايک نرس کے طور پر رجسٹرڈ ہيں۔ يہ صورت حال جسم فروشوں کے ليے رکاوٹ ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر چونکہ مارسکا نرس کے طور پر رجسٹرڈ ہيں اور ان دنوں نرسيں کام کر سکتی ہيں، انہيں ايمرجنسی الاونس کے ليے درخواست جمع کرانے کی اجازت نہيں۔ ايسی ہی کئی رکاوٹيں خواتين کو مجبور کر رہی ہيں کہ وہ قانونی دائرے سے باہر اپنا کام جاری رکھيں۔ ايک جسم فروش کی ہی جانب سے شروع کردہ PROUD نامی ايک مہم، جسم فروشوں کی معمولی سی مدد کرتی ہے مگر وہ کافی نہيں۔

اس رپورٹ میں شناخت مخفی رکھنے کے لیے تمام خواتین کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */