طنز و مزاح: ساتھی ہاتھ ملا ’نہ‘... تقدیس نقوی

کورونا اک ایسی منفرد مصیبت ہے جس سے لڑنے کے لئے ایک دوسرے کا پکڑا ہوا ہاتھ بھی چھوڑنا پڑ رہا ہے، ظاہر ہے کسی کا ہمیشہ کے لئے ساتھ چھوٹ جانے سے تو بہتر یہی ہے کہ وقتی طور سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا جائے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

تقدیس نقوی

بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ کسی بھی مصیبت کے نازل ہونے پر ہمیشہ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کرمتحد ہو کر ہی اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مگرکورونا وائرس کی وبا اک ایسی منفرد مصیبت ہے جس سے لڑنے کے لئے ایک دوسرے کا پکڑا ہوا ہاتھ بھی چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ ظاہر ہے کسی کا ہمیشہ کے لئے ساتھ چھوٹ جانے سے تو بہتر یہی ہے کہ وقتی طور سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا جائے۔ کیونکہ اس کے سوا اب اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ جان ہے تو جہان ہے۔ اس سخت وقت میں خوشی کی تقریبات کا اہتمام کرنا ضروری ہے یا ہرگھر پر دستک دیتی ہوئی موت کے متوقع جلوسوں کو روکنا زیادہ اہم ہے۔ مگر ہمارے میر صاحب جیسے بہت سے ایسے حضرات ہیں جو صحت عامہ کی خاطر عائد کردہ ان پابندیوں کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔

میر صاحب کا کہنا ہے کہ ’’یہ سب مغرب کی ہمارے خلاف سازش ہے تاکہ ہمارے درمیان تفرقہُ پیدا ہوجائے۔ ہم تو پچھلے دو مہینوں سے ایک دوسرے کے ساتھ یوں ہی گھل مل رہے ہیں، آج تک ہمیں تو کچھ نہیں ہوا، تو اب کیا نیا ہوجائے گا۔ یہ سب مغرب کا پروپیگنڈہ ہے۔ بھئی جب ہم چین گئے ہی نہیں اور نہ ہی ہمارے یہاں چین سے کوئی ہم سے ملنے آیا ہے تو پھر ہم پر آخر یہ پابندیاں کیوں عائد کی جارہی ہیں؟‘‘


’’میرصاحب یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ خود اس وائرس کو چین سے لے کر آئے ہوں۔ یہ وائرس ایک دوسرے کے ذریعہ لگتا ہوا ہم تک پہنچ سکتا ہے۔ اسی لئے تو ایک دوسرے سے دور رہنے کی ہدایات دی جا رہی ہیں‘‘ ہم نے بہت آسان زبان میں انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔

ہمارے ان سے مصافحہ کرنے سے انکار کرنے پر میر صاحب بہت تلملا کر فرمانے لگے " کبھی وہ بھی دن تھے جب کسی سے آگے بڑھ کر گرمجوشی سے مصافحہ کرنا اعلی اخلاق اور مہذب ہونے کی پہچان مانا جاتا تھا اور آج یہ عالم ہے کہ کسی کی جانب بے خیالی میں بھی ہاتھ آگے بڑھانا جہالت، لاعلمی اور بے حسی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ جناب وہ دن دور نہیں جب ان مغربی ممالک میں بے خیالی میں بھی ایک دوسرے کے ہاتھ سے ہاتھ مس ہوجانے پرعمداً ارادہ قتل کی دفعہ کا اطلاق ہونے لگے گا۔


ہمارے ملک میں جہاں ملزموں کے خلاف پولیس کی تیز رفتاری سے کاروائی کرنے کا ریکارڈ بہت اعلی ہے، لوگ صرف اس بات پرپولیس اسٹیشن رپورٹ لکھانے پہنچنے لگیں گے کہ ساتھ چلتے ہوئے شخص نے ان کے سامنے چھینکا یا کھانسا تھا۔ جس کے جواب میں پولیس ملزم کی املاک کی قرقی کرنے کی کارروائی کرے گی اور ایسے تمام ملزمان کی اشتہاری مجرموں کی طرح بڑی بڑی تصویریں ہورڈنگز پرلگادی جائیں گی۔ یہ جرم اتنا سنگین مانا جائے گا کہ اس سلسلے میں عدالتیں بھی بے بس نظر ائیں گی۔ پڑوسی اپنے آپسی پرانے قضیے ایک دوسرے پر چھینک چھینک کر نپٹانے کی کوشش کریں گے۔ ایک دوسرے سے تنگ آئے ہوئے شوہر اور بیویاں ایک دوسرے کے خلاف کورونا کی جھوٹی خبر دے کر چودہ دن کے کوارنٹائن بریک کی فری سہولت حاصل کرکے کچھ دن کے لئے ہی سہی عیش کے دن گزارسکیں گے‘‘۔

’’مگرمیرصاحب یہ سب احتیاطی تدابیرعوام کی صحت اور اس موذی وبا سے بچاؤ کی خاطر ہی تو کی جارہی ہیں اس میں بھلا حکومت اور صحت عامہ کے اداروں کا بھلا کیا فائدہ ہے؟‘‘ ہم نے میر صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی۔


’’جناب یہ بھی تو دیکھیے کہ ان ہی حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے اک پڑوسی نےخود کو ماسک اور پلاسٹک اپرین کے اندر ایسا روپوش کیا ہوا ہے کہ ان کے وہ قرض خواہ جو صبح شام اپنے قرض کے تقاضوں سے ان کا ناک میں دم کیے ہوئے تھے ان کے سامنے سے بھی گزر کر ان کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ ویسے یہ تو نہیں معلوم کہ ان کے اس نئے گٹ اپ کے ذریعہ انھوں نے کرونا وائرس کو کتنا دور رکھا ہے مگر یہ بات یقینی ہے کہ آج کل ان سے شہر کے بڑے بڑے بدمعاش اور پولیس والے بھی دور سے بچ کرنکل رہے۔ کورونا وائرس کے طفیل ہمارے وہ پڑوسی آج کل کچھ اس قدر دھلے دھلے اور سفید پوش نظر آنے لگے ہیں کہ اگر خدا نخواستہ کوئی برا وقت آجائے تواحباب انہیں غسل وکفن دیئے بغیردفن کی مسہری میں لٹا کر سیدھے قبرستان پہنچا سکتے ہیں‘‘۔

ہم دل ہی دل میں سوچنے لگے کہ حال ہمارا بھی کم و بیش وہی ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ ہم سے لوگ کرونا وائرس سے پہلے بھی گلے ملنے سے کتراتے تھے۔


’’میر صاحب پوری دنیا میں ان ہی پابندیوں کی وجہ سے ہی اس وبا کے سبب اموات میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ ہر خطہ میں اپنے اپنے طور سے احتیاطی تدابیر کی جارہی ہیں۔ یہ خبر بھی ہے کیونکہ اکثرعرب معززین ایک دوسرے کی ناک سے ناک ملاکر محبت واحترام کا اظہار کرتے ہیں اس لئےعربستان میں اس 'رسم ناک بوسی' کو فی الحال معطل کردیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ صحت عامہ کے تحفظ کے لئے ہی تو کیا جارہا ہے‘‘ ہم نے میر صاحب کو راضی کرنے کی کوشش کی۔

’’جی ہاں بس پہلے امیر لوگ ہی غریبوں سے ناک رگڑواتے تھے اب تو کورونا وائرس نے امیر غریب سب ہی سے ناک رگڑوا دی ہے۔ سنا ہے ناک، منہ، ہاتھ اس کورونا وائرس کے پسندیدہ پناہ گاہیں ہیں‘‘۔میر صاحب ہاتھ سے اپنی ناک رگڑتے ہوئے ہمارے صوفے سے اپنا ہاتھ صاف کرتے ہوئے بولے۔


’’مگر میر صاحب ناک تو ہم لوگ بھی ملاتے ہیں یا یوں کہیے کہ ملتے ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ ہم لوگ ناک ہاتھ میں لے کر کسی دوسرے کے ہاتھ پر یا صوفے پرملنے کی عمداً کوشش کرتے ہیں جو ایک دوسرے میں وائرس منتقل ہونے میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے‘‘ ہم نے اشارتاً اپنے صوفے اور اپنی خود کی مدافعت کرنے کی کوشش کی۔

’’یہی مسئلہ تو ہے جناب۔ ہمارے یہاں جسے پیار، محبت اور خلوص سے تعبیر کیا جاتا ہے چین والوں نے اسے کورونا وائرس کا نام دیا ہے‘‘ میر صاحب اپنا دوسرا ہاتھ ڈرائنگ روم کے پردے سے صاف کرتے ہوئے ہم سے بحث کرنے لگے۔


’’مگرآپ کے اس ’خلوص ومحبت‘ سے لبریز ہاتھ جب کسے دوسرے شخص سے مس ہوں گے تو جب تک وہ آپ کے اس خلوص و محبت کو واپس لوٹانے کی تقریب کرے گا اس کے سوئم کی تقریب ہوچکی ہوگی۔ آپ تو جانتے ہیں لوگ ایک دوسرے پر فاتحہ پڑھنے میں ذرا بھی دیر نہیں کرتے’’ہم نے میر صاحب سے تھوڑی کھل کر گفتگو کرنے کی کوشش کی۔

’’جناب یہ سب آپ کے بے بنیاد خوف ہیں اور بزدلی کی علامت۔ ہمارا پورا شہر کس دلیرانہ طریقے سے ہر تقریب منا رہا ہے۔ اسے کہتے ہیں بہادری‘‘ میر صاحب اپنا سینہ چوڑا کرکے کہنے لگے۔

’’جناب آپ کی یہ بہادری کہیں مرزا شیخی کے چچا کی طرح نہ ثابت ہو۔ ابھی بھی وقت ہے سمجھ جائیے‘‘ ہم نے میر صاحب کو ذرا سخت لہجہ میں تنبیہ کرنے کی کوشش کی۔

’’کون مرزا شیخی؟‘‘ میر صاحب بڑی حیرت سے پوچھنے لگے۔


’’اک بار مرزا شیخی دوستوں میں اپنے چچا کی بہادری کے قصے بیان کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہمارے چچا اتنے بہادر تھے کہ ایک بار جنگل میں نہتھے ہی گھس گئے اور سامنے سے آتے ہوئے ایک خطرناک شیر سے لڑ گئے‘‘ دوستوں نے ہوچھا پھر کیا ہوا تو وہ کہنے لگے۔

’’ہونا کیا تھا شیر چچا کو کھا گیا‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔