فرار یا مقابل: روسی نوجوان مخمصے کا شکار

روس اور یوکرین کی جنگ نے روسی نوجوانوں کو نفسیاتی اور جذباتی طور پر مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ ملک میں رہنے والے حکومت مخالف روسی ایک بہتر معاشرے کی تعمیر کی کوششیں کر رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

Dw

روس کی یوکرین کے خلاف جنگ کے ناقد اور اس لڑائی میں روسی فوج میں شامل ہونے کے خوف سے ہزاروں روسی باشندے اپنا وطن چھوڑ چُکے ہیں۔ اکیس سالہ ماشا ژانچفسکایا ان چند روسی نوجوان میں سے ایک ہیں، جو اب بھی اپنے ملک میں رہ کر اپنے خاندان اور اپنے ہم وطنوں کی دلجوئی کی کوشش کر رہی ہیں۔

یوکرین اور روس کے مابین تنازعات کے شروع کے دنوں میں، نوجوان ابھرتی ہوئی فلم ڈائریکٹر ماشا ژانچفسکایا کو ماسکو میٹرو پر سوار ہونا اور مسافروں سے بات چیت کرنا یاد ہے۔ ماسکو کے ایک کیفے میں بیٹھ کر انہوں نے خبر رساں ایجنسی اےایف پی کے ساتھ بات چیت کی۔ اس کیفے کی کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ایک دن، میں نے ایک نوجوان کی آنکھوں میں دیکھا اور ہم دونوں بغیر کچھ کہے رو پڑے۔‘‘


یوکرین میں ماسکو کی مہم پر تنقید کرنے والے یا جنگ میں حصہ لینے کے لیے بلائے جانے کے خطرے سے دوچار ہزاروںروسی اپنا وطن چھوڑ چکے ہیں۔ کریملن نے ملک سے روسی باشندوں کے اس تاریخی اخراج کو''تزکیہ نفس‘‘ قرار دیا ہے۔

ماشا اور ان جیسے دیگر روسی باشندوں نے ملک میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ ماشا بتاتی ہیں کہ ان کے بہت سے دوست ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور ان کے لیے اپنے دوستوں کو یہ بتانا بہت مشکل تھا کہ انہوں نے ملک نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا۔


فرار کی بجائے معاشرے سے مزید قربت

ماشا ژانچفسکایا نے ملک میں رہ کر اپنے خاندان سے زیادہ سے زیادہ قربت اختیار کی۔ وہ کہتی ہیں،''میں زیادہ نرم مزاج بننے کی کوشش کرتی ہوں، زیادہ صبر سے کام لیتی ہوں۔ بحث سے گریز کرنا اور اس کے نتیجے میں دوریاں پیدا کرنے سے بہتر ہے کہ ہم مل جُل کر رہیں۔‘‘

ماشا کے بقول وہ شکر گزار ہیں کہ ان کا خاندان ایک جیسے خیالات رکھتا اور ان کا اظہار کرتا ہے۔ تاہم ملک نہ چھوڑنے کے اپنے فیصلے کے بعد ماشا نے کہا کہ وہ اپنی آن لائن سرگرمیوں میں بھی زیادہ محتاط ہو گئی ہے۔ خیال رہے کہ روسی حکام نے روسی فوج کے بارے میں کوئی جعلی یا ہتک آمیز خبر پھیلانے والے کے لیے سزاؤں کا اعلان کر رکھا ہے۔


روسی نوجوانوں کا رویہ

بڑے شہروں میں رہنے والے بہت سے پڑھے لکھے روسی نوجوانوں کا ایک بڑا حصہ اکثر کریملن سے متفق نہیں ہوتا ہے۔ نوجوان روسیوں کے رویے کا مطالعہ کرنے والی ماہر عمرانیات ژیلینا اومیلچینکو کہتی ہیں، ''نوجوانوں کو بہتر مستقبل کے امکانات کی کمی اور سیاسی زندگی سے انہیں الگ تھلگ کر دیے جانے کا احساس ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ،''ایسے نوجوان ایک وقت میں صرف کچھ مہینوں کی ہی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔‘‘ ماہر عمرانیات ژیلینا اومیلچینکو نے بتایا کہ سال بھر کے دوران اینٹی ڈپریسنٹس ادویات کی مانگ میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایک آزاد تحقیقاتی ادارے پولسٹر لیواڈا سینٹر کے ایک سروے کے مطابق، روس میں حکام کے ساتھ اختلاف رکھنے والے نوجوان اکثریت میں نہیں ہیں۔ جنوری میں کی گئی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ 18 سے 24 سال کی عمر کے تقریباً 30 فیصد روسی ''یوکرین میں روسی مسلح افواج کے اقدامات‘‘ کے خلاف تھے۔


معاشرے کو ''صحت مند‘‘ بنانے کی کوشش

ماشا ژانچفسکایا کا کہنا ہے کہ وہ اپنے معاشرے کو''صحت مند‘‘بنانے کی کوشش کرنا چاہتی ہیں، '' میں فنون اور تعلیم کے ذریعے روس میں باقی رہنے والوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی کہ یہ سانحہ دوبارہ کبھی نہ ہو۔‘‘

اُدھر ماہر عمرانیات ژیلینا اومیلچینکو نے کہا کہ روس میں نوجوان قلیل مدتی منصوبے ترتیب دینے کے خواہاں ہیں، جیسے کہ پناہ گزینوں کے لیے چندہ اکٹھا کرنا، رضاکارانہ کام کرنا یا ثقافتی تقریبات کا انعقاد کرنا۔ ژیلینا کے مطابق اس قسم کی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے کے رویے میں بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے حالانکہ ان کا ''ایجنڈا ریاست کے ایجنڈے سے مطابقت نہیں رکھتا۔‘‘


تاہم دیگر روسی باشندوں نے سوویت دورکی یاد دلانے والی''اندرونی جلاوطنی‘‘ کا انتخاب کر لیا ہے، اور انہوں نے اپنے آپ کو اُس معاشرے سے دور کر لیا ہے، جس سے وہ متفق نہیں ہیں۔

بہت سے روسی نوجوان ایک مختلف جہت کی تلاش میں خود کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھ رہے ہیں۔ کچھ تخلیقی اور تعمیری کاموں کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی تمام تر توجہ کتابوں اورآرٹ پر مرکوز کر رہے ہیں۔ سوینا نامی ایک نوجوان خاتون اپنے گھر میں سیاسی مباحثے سے گریز کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی دادی ولادیمیر پوٹن کی بڑی حامی ہیں۔ اس لیے وہ گھر پر کوئی سیاسی گفتگو نہیں کرتیں۔ وہ کہتی ہیں،''میں کوشش کرتی ہوں کہ اس دنیا میں مزید نفرت نہ پھیلے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔