روسی یوکرینی جنگ ’ثقافتوں کی جنگ‘ ہے، جرمن فلسفی ولہیلم شمٹ

معروف جرمن فلسفی ولہیلم شمٹ کے مطابق یوکرین پر فوجی حملے کے بعد سے جاری جنگ دراصل ’ثقافتوں کی جنگ‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ کے لیے صرف روسی صدر کی ’آمریت‘ کو قصور وار قرار دینا غلط ہو گا۔

روسی یوکرینی جنگ ’ثقافتوں کی جنگ‘ ہے، جرمن فلسفی ولہیلم شمٹ
روسی یوکرینی جنگ ’ثقافتوں کی جنگ‘ ہے، جرمن فلسفی ولہیلم شمٹ
user

Dw

اس وقت 68 سالہ ولہیلم شمٹ جرمنی میں عہد حاضر کے ایک معروف فلسفی ہی نہیں بلکہ ایک انتہائی کامیاب مصنف بھی ہیں۔ انہوں نے جرمن اخبار 'آؤگسبُرگر الگمائنن‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ یوکرین کی جنگ کے لیے صرف روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور ان کے 'آمرانہ‘ طرز حکومت کو ہی واحد وجہ سمجھنا غلطی ہو گا۔

اس انٹرویو میں ولہیلم شمٹ نے کہا کہ روسی یوکرینی جنگ دراصل دو ثقافتوں اور دو متضاد رویوں کی جنگ ہے۔ ان کے مطابق اگرچہ اس بارے میں کوئی ٹھوس اعداد و شمار موجود نہیں مگر یہ بات کسی بھی شبے سے بالاتر ہے کہ روس میں صدر پوٹن کی حمایت کرنے والے شہریوں کی تعداد کم بھی نہیں ہے۔


روسی آرتھوڈوکس کلیسا کی طرف سے واضح حمایت

ولہیلم شمٹ کے بقول یوکرین کی جنگ کے بارے میں روس میں داخلی سطح پر پائی جانے والی قوم پسندانہ حمایت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ روسی آرتھوڈوکس کلیسا صدر پوٹن کی سیاست کا واضح طور پر حامی ہے۔ انہوں نے کہا، ''آپ ذرا یہ سوچیے کہ مسیحی اس قتل عام کو اچھا قرار دے رہے ہیں، اس کی تعریف کر رہے ہیں۔‘‘

دور حاضر کے سرکردہ جرمن فلسفیوں میں شمار ہونے والے ولہیلم شمٹ نے کہا کہ روسی عوام، سیاست اور معاشرے کا ایک بڑا حصہ واضح طور پر چاہتا ہے کہ وہ واپس ماضی کی طرف لوٹ جائے اور موجودہ روس ایک بار پھر وہی شاہی سلطنت بن جائے، جیسی وہ کبھی تھا۔ ان تمام خصوصیات کے ساتھ جو کسی سلطنت کا حصہ ہوتی ہیں: طاقت کی سیاست اور دیگر ممالک پر قبضے کی خواہش سمیت۔‘‘


'ثقافتوں کی جنگ‘ کی وضاحت

ولہیلم شمٹ نے اپنے اس انٹرویو میں کہا کہ ماضی میں 1990 کی دہائی میں بھی روس میں یہ سننے میں آیا تھا کہ یہ روس کا حق ہے کہ وہ اپنی ہمسایہ ریاستوں پر قابض ہو جائے کیونکہ ان ریاستوں کو اپنے علیحدہ اور آزادانہ وجود کو برقرار رکھنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ شمٹ کے بقول روسی آرتھوڈوکس کلیسا گزشتہ کئی صدیوں سے ذرا سا بھی نہیں بدلا۔ اس لیے کہ یہ اس کے وجود اور عقیدے کا حصہ ہے، ''کوئی بھی ترقی یا تبدیلی ہونا ہی نہیں چاہیے۔‘‘

دوسری طرف مغربی دنیا کی ثقافت ہے، جس نے گزشتہ عشروں میں کافی ترقی کی ہے اور جو تبدیلی کے عمل سے بھی گزر چکی ہے۔ ''مغربی دنیا جس تبدیلی کے دور سے گزر چکی ہے، وہ اسے بہتر سمجھتی ہے اور جاری بھی رکھنا چاہتی ہے۔ مثلاﹰ انسانی حقوق کے احترام، شخصی آزادیوں اور جمہوریت سے جڑی ہوئی اقدار کو۔‘‘


ولہیلم شمٹ نے اخبار 'آؤگسبُرگر الگمائنن‘ کو بتایا کہ یہ اقدار اور ان کے فہم کا وہی تصادم ہے، جسے روس اور یوکرین کی جنگ کے پس منظر میں بجا طور پر 'ثقافتوں کی جنگ‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی دنیا کا یقین یہ ہے کہ انسان کو بہتری کی کوششیں کرتے رہنا چاہیے اور تبدیلیاں وقت کے ساتھ آتی ہی رہتی ہیں۔

’’مغرب کی اس سوچ کو کلچر آف ٹائم کا نام بھی دیا جا سکتا ہے جبکہ یوکرین کی جنگ کے محرکات میں یہ سوچ شامل ہے کہ تبدیلی تو کوئی ہونا ہی نہیں چاہیے۔ اس تناظر میں بھی روسی یوکرینی جنگ کو 'ثقافتوں کی جنگ‘ کہنا بالکل غلط نہیں ہو گا۔‘‘


روس 'کلچر آف اسپیس‘ کا قائل

ولہیلم شمٹ نے، جن کی گزشتہ کتاب 'وطن تلاش کیجیے‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی، کہا کہ روس میں مغرب کی 'زمانی ثقافت‘ یا کلچر آف ٹائم کے بجائے 'مکانی ثقافت‘ یا کلچر آف اسپیس کی سوچ کہیں زیادہ غالب ہے۔ انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ روس اپنے رقبے کے لحاظ سے غیر معمولی حد تک بڑا ہے، ایک ایسا ملک جس میں کوئی بھی انسان آسانی سے گم ہو سکتا ہے۔

''اس لیے وہاں معاشرتی سطح پر فرد واحد کی وہ اہمیت اور حیثیت نہیں، جیسی مغرب میں لازمی سمجھتی جاتی ہے اور جس کا احترام بھی کیا جاتا ہے۔ روس کے اتنے بڑے مکانی وجود میں کسی فرد واحد کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہوتا۔ زمان و مکان کی دو مختلف ثقافتوں کے اسی تصادم کو دیکھا جائے تو یورپ کے مشرق میں اس وقت 'ثقافتوں کی جنگ‘ ہی لڑی جا رہی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔