بلقیس بانو گینگ ریپ کیس: 'مجرم برہمن اور نیک فطرت تھے‘

بلقیس بانو گینگ ریپ کیس کے مجرموں کی رہائی کا فیصلہ کرنے والی گجرات حکومت کی کمیٹی کے رکن اور بی جے پی کے قانون ساز کا کہنا ہے کہ مجرم 'نیک فطرت' تھے۔ ان کے بقول جیلر نے بھی ان کے کردار کی تصدیق کی ۔

بلقیس بانو گینگ ریپ کیس: 'مجرم نیک فطرت تھے‘
بلقیس بانو گینگ ریپ کیس: 'مجرم نیک فطرت تھے‘
user

Dw

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں گودھرا سے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن اسمبلی سی کے راولجی نے بلقیس بانو گینگ ریپ کے مجرموں کو رہا کیے جانے پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، ''ان میں سے کچھ برہمن تھے، برہمن نیک فطرت ہوتے ہیں۔ اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سب کی رہائی کا فیصلہ کیا گیا۔‘‘

'انصاف پر یقین ڈگمگا گیا ہے‘

اجتماعی جنسی زیادتی کے مجرموں کو معاف کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں بلقیس بانو نے کہا، ''میں سکتے میں ہوں۔ آخر کسی انصاف کا اختتام اس طرح کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے ملک کی اعلیٰ عدالتوں پر بھروسہ کیا، میں نے سسٹم پر بھروسہ کیا اور دھیرے دھیرے اپنے دکھ کے ساتھ جینا سیکھ رہی تھی لیکن ان مجرموں کی رہائی نے میرا سکون چھین لیا ہے اور انصاف پر سے میرا بھروسہ بھی ڈگمگا گیا ہے۔‘‘


سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو ہدایت دی تھی کہ بلقیس بانو کو رہائش کے لیے گھر فراہم کرے تاہم ریاستی حکومت نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا،"میں گجرات حکومت سے اپیل کرتی ہوں کہ مجھے بلاخوف جینے کا میرا حق واپس کرے۔ اور میرے اور میرے خاندان کی حفاظت کو یقینی بنائے۔"

گودھرا جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ان تمام مجرموں کو 15 اگست کو یوم آزادی کے موقع پر رہا کر دیا گیا تھا۔ ان کی رہائی سے صرف چند گھنٹے قبل ہی وزیر اعظم مودی نے یوم آزادی کے روایتی خطاب کے دوران تاریخی لال قلعہ کی فصیل سے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ خواتین کے عزت و وقار کا احترام کرنے کا عہد کریں۔


'مجرموں کا حوصلہ بلند ہو گا'

گینگ ریپ کے مجرموں کو رہا کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کے ہر سمت مذمت کی جا رہی ہے۔ انسانی، سماجی اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم متعدد تنظیموں سمیت 6000 سے زائد شہریوں نے ایک مشترکہ بیان میں سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ ان مجرموں کو معاف کرنے کے ریاستی حکومت کے فیصلے کو منسوخ کیا جائے۔

سماجی کارکن اور جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر پروفیسر سلیم انجینئر نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"گجرات حکومت کا فیصلہ ایک خطرناک نظیر قائم کرتا ہے۔ جو ہمارے انصاف کے نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔ اگر ہم جمہوریت اور قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو اس فیصلے کو تبدیل کرنا ہو گا۔"


پروفیسر سلیم انجینئر نے مزید کہا، ''اگر 'معافی کی پالیسی' کا یہ سلسلہ جاری رہا تو جرائم پیشہ اور ان کے ماسٹر مائنڈز کو حوصلہ ملے گا کیونکہ انتہائی سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے کے باوجود جلد یا بدیر انہیں رہا ہو جانے کا یقین ہو گا۔"

یہ فیصلہ خود وزیر اعظم کی ہتک اور توہین ہے

دانشور اور مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اخترالواسع نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"وزیر اعظم مودی نے جس روز عورتوں کے احترام اور توقیر کی تلقین کی اسی روز گجرات حکومت نے جو فیصلہ کیا وہ خود وزیر اعظم کی ہتک اور توہین ہے۔"


پروفیسر واسع نے کہا کہ گجرات حکومت کو اپنا فیصلہ فوراً واپس لینا چاہیے تاکہ دنیا میں بھارت کا وقار مجروح نہ ہو اور خواتین سمیت تمام مظلوموں کا ملک کے قانون پر اعتماد بحال ہو سکے۔

'اوچھی ذہنیت کی علامت'

بلقیس بانو گینگ ریپ کے مجرموں کی گودھرا جیل سے رہائی کے بعد نہ صرف مٹھائیاں تقسیم کی گئیں بلکہ ایک تقریب منعقد کرکے مجرموں کا شاندار استقبال بھی کیا گیا۔ اس تقریب کا اہتمام ہندو شدت پسند جماعتوں نے کیا تھا۔


کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا، ’’اناو میں بی جے پی ممبر اسمبلی کو بچانے کی کوشش کی گئی، کٹھوعہ میں جنسی زیادتی کے ملزموں کی حمایت میں ریلی نکالی گئی، ہاتھرس میں حکومت نے جنسی زیادتی کرنے والوں کا ساتھ دیا، گجرات میں ایسے مجرموں کو رہا کرکے انہیں نوازا گیا۔ اس سے خواتین کے حوالے سے بی جے پی کی اوچھی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔" راہول گاندھی نے سوال کیا، آیا وزیر اعظم مودی کو اس طرح کی سیاست پر شرمندگی نہیں ہوتی؟

ہر جانب مذمت

رکن اسمبلی سی کے راولجی کے مطابق جیلر نے قید کے دوران ان سب کے اچھے رویے کی تصدیق کی تھی۔ راولجی گجرات حکومت کی طرف سے تشکیل شدہ اس کمیٹی کے رکن تھے، جس نے گینگ ریپ کے تمام گیارہ مجرموں کو معاف کرنے کا فیصلہ کیا۔


مجرموں کو رہا کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے اور بی جے پی کے رکن اسمبلی راولجی کے بیان کی سخت مذمت کی جا رہی ہے۔ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایات پر مجرموں کو رہا کیا گیا ہے جبکہ ماہرین قانون اور سماجی کارکنوں نے اس فیصلے کو 'قانون کا مذاق' اور سپریم کورٹ کی توہین قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت سے مجرموں کی رہائی سے متعلق غور کرنے کے لیے کہا تھا اور اتنے بھیانک جرم کے مجرموں کو کسی بھی صورت میں رہا نہیں کیا جانا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔