ممنوعہ کتابوں کا ہفتہ: مطالعے کی آزادی کے لیے جدوجہد

گلیلیلیو گیلیلی، سلمان رشدی اور جے کے رولنگ میں کیا چیز مشترک ہے؟ مشترک یہ ہے کہ ان کی یا ان کے بارے میں لکھی گئی کتب پر مختلف وجوہات کی بنا پر پابندی عائد کی گئی۔

ممنوعہ کتابوں کا ہفتہ: مطالعے کی آزادی کے لیے جدوجہد
ممنوعہ کتابوں کا ہفتہ: مطالعے کی آزادی کے لیے جدوجہد
user

Dw

چالیس سال قبل ستمبر 1982ء میں امریکہ میں پہلا ''ممنوعہ کتابوں کا ہفتہ‘‘ منعقد ہوا تھا۔ ایک ادارے 'بینڈ بُکس ویک ڈاٹ او آر جی‘ کے مطابق یہ سالانہ آگاہی مہم اسکولوں، کتابوں کی دکانوں اور لائبریریوں میں کتابوں کے حوالے سے چیلنجز کی تعداد میں اچانک اضافے کے جواب میں شروع کی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایک اہم حوالہ امریکی سپریم کورٹ میں چلنے والا آئی لینڈ ٹریز اسکول ڈسٹرکٹ بنام پیکو (Pico) نامی مقدمہ بھی ہے۔ اس مقدمے میں ججوں نے فیصلہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر سنایا تھا اور فیصلے کی بنیاد امریکی آئین میں کی جانے والی پہلی ترمیم کو بنایا گیا تھا۔


تب امریکی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ پہلی آئینی ترمیم کے تحت جونیئر ہائی اسکولوں اور ہائی اسکولوں کے حکام کو حاصل ایسے اختیارات انتہائی محدود ہیں کہ وہ اسکولوں کی لائبریریوں سے مختلف کتابوں کو ان کے مندرجات کے باعث ہٹا سکیں۔

اس مقدمے کی بنیاد 1976ء میں ایک اسکول کی لائبریری سے نو ایسی کتابوں کا ہٹایا جانا بنا تھا، جن میں کُرٹ وونیگٹ کی کتاب 'سلاٹر ہاؤس فائیو‘ بھی شامل تھی۔ ان کتابوں پر پابندی کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ وہ سب ''امریکہ مخالف، مسیحیت مخالف اور سامیت مخالف تھیں اور ان میں محض گندگی‘‘ بھری ہوئی تھی۔


جوڈیتھ کروگ ایک ممتاز امریکی ایکٹیوسٹ تھیں، جنہوں نے پہلی بار امریکن لائبریری ایسوسی ایشن کی ایک آزاد کمیٹی کے ساتھ مل کر اس ہفتے کو منانے کا تصور پیش کیا۔ یہ ہفتہ عام طور پر ماہ ستمبر کے آخری دو ہفتوں میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس سال یہ ویک 18 اور 24 ستمبر تک منایا جائے گا۔ اس دوران ہونے والی تقریبات کا مقصد عوام کو یہ سمجھانا ہے کہ معلومات تک مفت اور آسان رسائی کس قدر اہم ہے۔

بینڈ بکس کی ویب سائٹ کے مطابق اس ہفتے کے دوران لائبریرین، کتب فروش، ناشر، صحافی، اساتذہ اور قارئین کی امیریکن بک کمیونٹی 'اظہار خیال کرنے کی آزادی‘ کی حمایت کے لیے مختلف قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لیں گے۔


ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی اس موقع کو دنیا بھر میں ان لوگوں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، جنہیں ان کی تحریر، فن، یا ان کے اشاعت شدہ دیگر کام کی وجہ سے قید اور دھمکیوں کا سامنا ہے یا پھر قتل کر دیا گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی بینڈ بک ویک کمیٹی کا رکن ہے۔

گزشتہ برسوں کے دوران والدین، سکولز یا امریکی وکلا نے مختلف تحریری مواد کو ناموزوں قرار دیتے ہوئے عدالت میں چیلنج کیا ہے ۔ تمام دیگر کتب کے ہمراہ انعام یافتہ امریکی شاعرہ مایا اینجلو کی 'آئی نو وائی دی کیجڈ برڈز سنگ‘ نامی کتاب پر ہم جنس پرست، شادی سے پہلے جنسی تعلقات اور بے راہ روی جیسے موضوعات کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے ایک گمراہ تحریر کہا گیا۔


مارک ٹوین کی 'دی ایڈوینچر ہکلےبیری فِن‘ کو غیر اخلاقی زبان کے استعمال کے الزام میں چیلنج کیا گیا۔ 2001 میں، جے ڈی سالنگر کی 'کیچر ان دی رے‘ (1951) کو اسکول بورڈ کے ایک رکن کی جانب سے ہٹا دیا تھا جن کا خیال تھا کہ یہ ایک 'فحش‘ کتاب ہے۔ ان تینوں مصنفوں کو امریکہ میں 'کلاسک‘ سمجھا جاتا ہے۔

اس ضمن میں کئی بین الاقوامی کتابوں کو نشانہ بنایا گیا۔ کچھ امریکی اسکولوں کی لائبریریوں نے برطانوی مصنف جے کے رولنگ کی عالمی پذیرائی سمیٹنے والی 'ہیری پوٹر‘ سیریز کی تمام کتابوں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے مطابق رولنگ بھوتوں، فرقوں اور جادو ٹونے جیسے موضوعات پر لکھتی ہیں۔


سلمان رشدی کی 'سیٹینک ورسز‘ پابندی کا سامنا کرنے والی کتابوں میں سب سے قابل ذکر کتاب ہے جس پر بہت سے ممالک میں پابندی لگائی گئی ہے۔ مسلم ممالک کی جانب سے اس پر یہ اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ اس کتاب میں پیغمبر اسلام کی توہین آمیز تصویر کشی کی گئی ہے۔

اس ناول نگار کو سن 1988 میں اپنی کتاب کے شائع ہونے کے بعد دس برس تک روپوش رہنا پڑا کیونکہ اس وقت کے ایرانی رہنما، آیت اللہ روح اللہ خمینی نے اس کتاب پر فتوی لگا دیا تھا۔ انہوں نے سلمان رشدی کو قتل کرنے والے کو 3 ملین امریکی ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا۔


اس کے بعد 12 اگست، 2022 کو 24 سالہ ہادی مطر نے ریاست نیویارک میں رشدی پر متعدد بار چاقو کے وار کیے۔ رشدی اس وقت چوتاؤکا انسٹی ٹیوشن میں عوامی لیکچر دینے کے لیے موجود تھے۔ متر کو جائے وقوعہ پر گرفتار کیا گیا تھا۔ جیل سے نیویارک پوسٹ سے بات کرتے ہوئے مطر نے کہا کہ رشدی ''اسلام پر حملہ کرنے والا شخص ہے۔‘‘

واضح رہے کہ لفظ 'پابندی‘ بذات خود متضاد ہے۔ ناقدین کے مابین یہ بات زیر بحث ہے کہ امریکہ میں کتابوں پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ جیسا کہ دنیا کے دیگر حصوں میں ہوتا آ رہا ہے جہاں حکومتیں مختلف وجوہات کی بنا پر کتابوں کی فروخت یا دستیابی پر پابندی لگاتی ہیں۔ امریکی نصاب یا اسکول اور پبلک لائبریریوں میں کتابیں اکثر والدین، وکلا یا نجی شہریوں کی طرف سے ان کے جنسی، پرتشدد، جارحانہ یا عمر کے لحاظ سے نامناسب مواد کے لیے 'چیلنج‘ کی جاتی رہی ہیں۔


بینڈ بک ویک کے تاہم حامیوں کا کہنا ہے کہ 'پابندی کا سامنا کرنے والی کتابوں کا ہفتہ‘ منانے سے لوگوں میں معلومات حاصل کرنے کی آزادی اور رسائی کے بارے میں شعور اجاگر ہو گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔