یورپ ایکسپریس: یورپی ممالک کو ملانے والی برق رفتار ٹرینوں کا نظام

یورپی یونین رواں عشرے کے آخر تک مسافروں اور کمپنیوں کے لیے ریل کا سفر مزید پرکشش بنانا چاہتی ہے۔ لزبن سے روانہ ہونے والی ’کنیکٹنگ یورپ ایکسپریس‘ کے ذریعے اس منصوبے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس
فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

کنیکٹنگ یورپ ایکسپریس جمعرات کے روز پرتگال کے شہر لزبن سے براعظم یورپ کا بیس ہزار کلومیٹر (بارہ ہزار چار سو میل) کا طویل سفر شروع کرتی ہے۔ اس ریل رابطے کو یورپی یونین میں ریلوے نظام کے مستقبل کے سفیر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لیکن فی الحال اس سفر میں بہت سے چیلنجز بھی ہیں۔ مثلاﹰ کنیکٹنگ یورپ ایکسپریس چند دنوں کے سفر کے بعد جب فرانس پہنچتی ہے، تو وہاں ایک مکمل نئی ٹرین کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ فرانس میں پٹڑیوں کی درمیانی چوڑائی مختلف ہوتی ہے۔

ٹرین کی پٹڑیوں کے تکنیکی مسائل

یورپ کے تمام ملکوں میں ایک جیسی ٹرینیں چلانے میں سب سے پرانی رکاوٹ ریلوے ٹریک کی چوڑائی رہی ہے۔ لیکن یہ یورپی یونین کو درپیش چیلنجز کا صرف ایک حصہ ہے۔ یورپی ممالک میں درجنوں ریلوے نیٹ ورک آزادانہ طور پر تعمیر کیے جاتے ہیں، ٹکٹ کی قیمت، ٹرینوں کی آمد و رفت کے اوقات اور مسافروں سے متعلق قوانین جیسے معاملات کے بارے میں بھی بمشکل ہی بات چیت کی جاتی ہے۔


یورپی یونین اس رجحان کو بدلنا چاہتی ہے اور نئی قانون سازی کے ذریعے قومی ریلوے کمپنیوں کو زیادہ مسابقت کے لیے متحرک کرنا چاہتی ہے۔ کیونکہ مسافروں کی بڑھتی ہوئی تعداد اب فضائی سفر کے بجائے ریل کے ذریعے سفر کو ترجیح دیتی ہے۔ اس لیے نئے پائلٹ منصوبے متعارف کرائے گئے ہیں تاکہ ڈیجیٹلائزیشن اور آٹومیشن کو بھی آزمایا جا سکے۔

یورپی یونین کے سرمایہ کاری کے ایک منصوبے 'شفٹ ٹو ریل‘ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کارلو بورگینی کہتے ہیں، ''ریل کے بہت سے فوائد ہیں۔ لیکن اگر مختلف رکاوٹوں کی وجہ سے انہیں استعمال نہیں کیا جائے گا، تو یہ ضائع ہوجائیں گے۔‘‘


ماحول دوست ریلوے نظام کی ضرورت

کنیکٹنگ یورپ ایکسپریس کا منصوبہ ان فوائد کو اجاگر کرنے کے لیے ہے۔ ایک مہینے کا سفر، چھبیس مختلف ممالک سے گزرتی ہوئی تین الگ الگ ٹرینیں۔ یورپی یونین نے 'یورپی ریل کے سال‘ کے دوران اس منصوبے کو شروع کیا ہے۔

برسلز کا ارادہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے پرانے طریقے کو دوبارہ بحال کرنے کا یہ مناسب وقت ہے۔ گزشتہ برس نقل و حرکت کے حوالے سے مستقبل کی حکمت عملی کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں عوام کو ٹرین کے سفر کی جانب راغب کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ یورپی یونین رواں دہائی کے آخر تک پورے براعظم میں تیز رفتار ٹرینوں کی تعداد نہ صرف دوگنا کرنا بلکہ بڑے شہروں کو آپس میں ملانے پر بھی خصوصی توجہ دینا چاہتی ہے۔


ریلوے کمپنیوں کے لیے اس بلاک کا تازہ ترین قانونی پیکج بھی اس سال سے نافذالعمل ہوچکا ہے۔ نئے قوانین کا مقصد اس شعبے میں مسابقت کو آگے بڑھانا ہے۔ مثال کے طور پر کسی بھی رکن ملک کی کسی ریلوے کمپنی کو پورے بلاک میں کام کرنے کی اجازت ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی یورپی مسافر فضائی سفر کے بجائے ٹرین میں سفر کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یورپی یونین میں ٹرانسپورٹ کے استعمال کے باعث خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں میں ریل سیکٹر کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم بنتا ہے جبکہ فضائی سفر کے شعبے کا حصہ 3.8 فیصد تک ہے۔ یورپی ممالک کے بڑے شہروں کو ملانے والے ریلوے نیٹ ورک کی مدد سے یورپی یونین کے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے اہداف بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔


نائٹ ٹرین کا سفر

'دی مین اِن سیٹ سکسٹی ون‘ کے نام سے مشہور ریلوے امور کے ماہر مارک اسمتھ یورپ میں نائٹ ٹرین یا نائٹ کوچز کی ترقی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اسمتھ کے مطابق ایک مرتبہ یورپ میں ریل کی پٹڑیوں کی تزئین نو کا کام مکمل ہو جائے، تو عین ممکن ہے کہ مسافروں کی بڑی تعداد تیز رفتار ٹرینوں کا رخ کرے، کیونکہ یوں ان کا وقت بچے گا۔ اس وقت یورپ میں مسافروں کو یہ سہولت سستی ایئرلائنز فراہم کر رہی ہیں۔

جرمن ریلوے کمپنی ڈوئچے بان کی جانب سے چند سال قبل سلیپر کوچز فروخت کرنے کے بعد ہی نائٹ ٹرینوں کے شعبے میں نمایاں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ رواں سال موسم گرما میں آسٹریا نے ایمسٹرڈم سے ویانا کے لیے نائٹ ٹرین سروس کا آغاز کیا اور آئندہ دو سالوں میں پیرس سے روم سمیت دو مزید نائٹ ٹرینیں شروع کی جائیں گی۔ دوسری جانب سویڈش ریلوے آپریٹر نے بھی اسٹاک ہوم سے برلن کے لیے نائٹ ٹرین شروع کی ہے اور ایک ڈچ اسٹارٹ اپ کمپنی کی شراکت سے بیلجیم سے پراگ تک کے روٹ کا آغاز بھی جلد متوقع ہے۔


پائیدار سواری کی اہمییت

اسمتھ اور بورگینی کے خیال میں اگر مسافر اپنی مرضی سے فضائی سفر کے بجائے ریل گاڑیوں کا انتخاب کرتے ہیں، تو ان کے لیے ریل میں سفر کرنے کا تجربہ بھی خاص ہونا چاہیے۔ ٹرین کے اوقات اور ٹکٹ کی خرید و فروخت کے مرحلے کو آسان بنایا جائے تاکہ مسافروں کا سفر بھی پرسکون رہے۔ اسی طرح مسافروں کے حقوق اور ریلوے کے واضح قواعد مسافروں کو مجموعی طور پر اطمینان کا احساس دلا سکیں گے۔

'شفٹ ٹو ریل‘ منصوبے کی مالیت 900 ارب ڈالر تک ہے۔ بورگینی اس فنڈ کے ذریعے تکنیکی منصوبوں کو مؤثر بنانا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر کم شور والی ٹرینیں، ٹرین کی آٹومیٹک بوگیاں اور مستقبل میں ٹرین اسگنلز کا بہتر انفراسٹرکچر۔ بورگینی کے بقول، ''ہمارے پاس ایئر ٹریفک مینجمنٹ کی طرح کا مربوط نظام ہونا چاہیے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ریئل ٹائم سیٹلائٹ ٹریکنگ اور آٹومیشن جیسی ٹیکنالوجیز نئے حل پیش کرسکتی ہیں۔ بورگینی کے مطابق ہوا بازی اور موٹر گاڑیوں کی صنعت دونوں ہی پائیدار ٹیکنالوجی تیار کرنے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ اس لیے ریل انڈسٹری میں بھی پائیدار ٹیکنالوجی متعارف کرانے کا یہی بہترین موقع ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔