ایک پاگل، دو پاگل، تین پاگل، سب پاگل

پشاور میں ایک عدالت میں توہین مذہب کے الزام پر قتل کے بعد کڑا سوال یہ ہے کہ پاگل کون ہے؟ بلکہ پاگل کون کون ہے؟

ایک پاگل، دو پاگل، تین پاگل، سب پاگل
ایک پاگل، دو پاگل، تین پاگل، سب پاگل
user

ڈی. ڈبلیو

فرض کیجیے آپ سوشل میڈیا پر برقی صفحات چھان پھٹک رہے ہوں اور ایسے میں کوئی بال بکھرائے، چہرے پر ہوائیاں اڑائے، دیدے پھاڑے چیختا ملے کہ میں آئن اسٹائن ہوں۔ آپ کا ردعمل کیا ہو گا؟ آپ کا سائنس اور طبعیات سے والہانہ عشق اپنی جگہ مگر مجھے نہیں لگتا کہ آپ کے دل میں اس حواس باختہ 'آئن اسٹائن‘ کا سر پھاڑ ڈالنے کا خیال آئے گا۔

ہم تو بہت چھوٹے تھے جب سے کوئی کام کی بات منہ سے نکل جاتی، کسی بڑے کی بات پلو میں باندھ کر یاروں کی کسی محفل میں کھول بیٹھتے تو عموماﹰ یہی سننے کو ملتا کہ یار جانی افلاطون مت بن۔


ہمارے ہاں تو محاورے ہیں، سقراط، ارسطو، کنفیوشس، غالب، نیوٹن اور جانے کیا کیا۔ پھر ہمارے مثالیے سائنس دان اور فلسفی ہی نہیں۔ ڈاکٹروں کے مسیحا کی اصطلاح کا مذہبی پہلو بھی تو ہے۔ کراچی میں ڈاکٹر محمد علی شاہ ہڈیوں کا آپریشن کرتے تھے، تو اس مسیحا کے ہاتھ سے چمتکار ہی تو ہوتے تھے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نیم مردہ جسموں کو دوبارہ زندگی کی جانب لوٹا کر معجزے ہی تو کرتے رہے ہیں۔ مگر ان تمام تر تعریفوں کے باوجود سبھی کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ فقط تعریف ہے، اسے لفظی نہیں بلکہ علامتی سمجھا جائے۔

ابھی کچھ عرصے قبل جنرل ضیاالحق صاحب کو خلیفہ المسلمین بننے کا خبط سوار ہوا تھا اور بعد میں نواز شریف صاحب کے دل میں بھی امیرالمومنین بننے کی خواہش پیدا ہوئی تھی۔ عمران خان صاحب نے بھی تو ریاست مدینہ ہی تخلیق کرنے کا اعلان کیا تھا۔


پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان میں مذہبی بیانیے اتنی شدت سے استعمال کیے گئے ہیں اور نصابی کتب میں ماضی کے ایسے منارے کھڑے کیے گئے ہیں کہ اب نوجوان ترکی کے ارطغرل کا فکشن ڈرامہ دیکھتے ہیں، تو حقیقت سمجھنے لگتے ہیں۔ اسی کی دہائی میں بھی نسیم حجازی کے تاریخی ناول کے باہر تاریخ کو پورا دیس پڑھ گیا جب کہ لفظ ناول کو بالکل صرفِ نظر کر دیا گیا۔ ان ناولوں میں لکھی فکشن تاریخ سمجھی جانے لگی اور نسیم حجازی کے چست ڈائیلاگ جیسے واقعی میں اہم تاریخی شخصیات کے جملے سمجھے جانے لگے۔

معاشرے میں مذہبی شدت پسندی کا فروغ اتنے منظم انداز اور طویل المدتی بنیادوں پر ہوا ہے کہ یہ زہر اب تمام تر منطق، سوچ، فکر، بحث، مکالمے اور حتیٰ کہ قانون تک سے ماورا ہو چکا ہے۔ پشاور کی ایک عدالت میں ایک شخص کو ایک نوجوان نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ مقتول کے بارے میں پتا چلا کہ اس نے مبینہ طور پر پیغمبر ہونے کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ اس کی ایک اور ویڈیو بھی سامنے آئی، جس میں وہ اپنی مخدوش دماغی حالت کا رونا رو رہا تھا۔ دوسری جانب جرم کے بعد قاتل نوجوان پورے جوش سے اپنے اس جرم پر نازاں دکھائی دیتے ہوئے نعرے لگا رہا تھا کہ وحی کا دعویٰ کر کے اس نے توہین مذہب کی تھی۔ حیران کن بلکہ پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ قتل عدالت میں جج اور پولیس کی ناک کے نیچے ہوا۔ یہ سوال کہ یہ نوجوان عدالت میں کیسے پہنچا، اسلحے کے ساتھ کوئی کمرہ عدالت میں کس طرح داخل ہو سکتا ہے اور کیسے اتنے سارے لوگوں کی موجودگی میں یہ نوجوان سرکاری تحویل میں موجود ایک شخص کے قتل میں کامیاب ہو گیا، ضروری مگر ثانوی سوال ہیں۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ مقتول تو اپنی دماغی حالت سے متعلق بتا چکا تھا کہ وہ بیمار ہے، یہ قاتل نوجوان کس دماغی حالت کا شکار ہے؟


اس سے بھی زیادہ پریشان کن صورت حال اس واقعے کے بعد ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ تھا، جس میں اس قتل کی حمایت اور قاتل کی توصیف بیان کی جا رہی تھی۔ سوال یہ بھی ہے کہ قتل اور قاتل کی حمایت و توصیف کرنے والوں کی دماغی حالت کیسے ٹھیک ہے؟

اگر کوئی شخص خود کو آئن اسٹائن کہتا ہے اور میں اس پر ایک مسکراتی نگاہ ڈال کر آگے بڑھ جاتا ہوں کہ کوئی دوسرا آئن اسٹائن کیسے ہو سکتا ہے۔ کوئی شخص خود کو نیوٹن یا گیلیلیو کہتا ہے تو ہم سب پر واضح ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ کوئی ایسے کسی دعوے میں سنجیدہ ہو، تو ممکن ہے اسے کسی نفسیاتی ہسپتال تک میں داخل کرا دیا جائے۔ لیکن ایسے کسی دعوے پر اگر کوئی شخص مدعی کو قتل کرنے کا سوچتا ہے، تو پھر مدعی سے قبل نفسیاتی ہسپتال میں منتقلی ایسے شخص کی ضروری ہے۔


کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر ہی ایک تصویر دیکھنے کو ملی جس میں ایک مذہبی رہنما سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کے مزار پر ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ اس سے پہلے کسی نے حکمران جماعت کے ایک صوبائی وزیر کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کر رکھی تھی، جس میں وزیر مذہب کے نام پر سلمان تاثیر کو قتل کرنے اور عدالت سے سزائے موت پانے والے ممتاز قادری کی قبر پر لہک لہک کر نعتیں سنا رہے تھے۔

ایک معاشرہ جہاں قتل پر جشن منایا جانے لگے، جہاں قاتل کو ہیرو سمجھا جانے لگے اور جہاں جرم کی دلیل یہ ہو کہ عدالت کم زور ہے اس لیے فیصلہ سڑکوں پر کیا جانا چاہیے، ایسے معاشرے میں نفسیاتی گھٹن، فکری پختگی اور علمی مکالمت کے لیے جگہ کا تصور آپ خود کر سکتے ہیں۔


پشاور میں ایک عدالت میں پیش آنے والے واقعے اور پھر اس قتل کی حمایت میں جاری سوشل میڈیا ٹرینڈ کے بعد سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ایک پاگل، دو پاگل، تین پاگل یا سب پاگل؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔