'جرمنی کے لوگ‘ اور روزمرہ زندگی میں نظر آنے والی نسل پرستی

جرمنی کی موجودہ سماجی صورت حال کے حوالے سے ایک نئی کتاب کے مطابق مختلف پس منظر والے افراد، تارکین وطن اور مہاجرین نسل پرستی کا شکار ہوتے ہیں۔

'جرمنی کے لوگ‘ اور روزمرہ زندگی میں نظر آنے والی نسل پرستی
'جرمنی کے لوگ‘ اور روزمرہ زندگی میں نظر آنے والی نسل پرستی
user

Dw

جب پیٹریشیا ین لِن فرائی مُوتھ اپنے شوہر کے ساتھ میونخ میں ایک نئے اپارٹمنٹ میں منتقل ہوئیں تو ان کے پڑوسی کا پہلا سوال یہ تھا کہ آیا وہ صفائی کرنے والی نئی خاتون کارکن تھیں؟

تعلقات عامہ کی ماہر چینی نژاد جرمن شہری فرائی مُوتھ نے کتاب 'پیپل آف ڈوئچ لینڈ‘ میں شامل اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ انہیں اور ان کی بہن کو ایشیائی نسل کے دیگر افراد کی طرح جرمنی میں کس طرح کے سماجی اور نسل پرستانہ تجربات کا سامنا کرنا پڑا۔


جرمنی اپنے آپ کو ایک لبرل ملک اور آج سن 2023 میں گزشتہ ہزاری کے آخری برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کاسموپولیٹن سمجھتا ہے۔ سن 2006 کے ورلڈ کپ کے بعد اکثر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ جرمنی میں پہلے سے زیادہ رنگارنگی اور ہم آہنگی دیکھنے میں آتی ہے۔ میڈیا اور سیاست میں تنوع میں اضافے کے مدنظر مبصرین کو یہ تاثر بھی مل سکتا ہے کہ ملک میں نسلی پرستی ختم ہو رہی ہے۔

لیکن نسل پرستانہ سماجی رویوں کے حوالے سے حکومت کی پہلی سالانہ رپورٹ سے یہ تاثر غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ یہ رپورٹ حال ہی میں جرمنی میں سماجی انضمام اور انسداد نسل پرستی کی کمشنر ریم العبلی رادووان نے پیش کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق، جو متاثرین کے نقطہ نظر پر مبنی ہے، جرمنی میں روزمرہ زندگی میں نسل پرستی نہ صرف جسمانی تشدد اور زبانی حملوں کی صورت میں نظر آتی ہے بلکہ تارکین وطن کے پس منظر کے حامل افراد کو اسکولوں اور سپورٹس کلبوں میں، رہائش گاہیں تلاش کرنے میں، کام کے مقامات پر اور پولیس کے ذریعے بھی تفریق آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


تکلیف دہ تجربات

’بلیک ہسٹری‘ کے مہینے میں شائع ہونے والی 'پیپل آف ڈوئچ لینڈ‘ ایک ایسی کتاب ہے جو مہاجرت کا پس منظر رکھنے والے افراد کے ذاتی تجربات پر مبنی ہے۔ ان میں مصنف اور سماجی کارکن دوزین تیکال، ٹی وی میزبان مولا ادیبیسی اور پیشہ ور فٹ بالر ہانس سارپئی جیسی مشہور شخصیات شامل ہیں۔

اس کتاب کی ایڈیٹر مارٹینا رِنک کا استدلال ہے کہ عام افراد کو بھی نسل پرستی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو نظریے پر مبنی نسل پرستی کے مقابلے میں زیادہ نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ''ہر روز نسل پرستی اس تضاد کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ یہ کہیں بھی اور کسی کے ساتھ بھی وقوع پذیر ہو سکتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو آپ کو حقیقتاً پسند کرتے ہیں، وہ بھی آپ کو تکلیف پہنچاتے ہیں اور اس جانب ان کی توجہ جاتی ہی نہیں۔‘‘


نسلی اور جزوی طور پر ایرانی پس منظر کی حامل لیکن برطانیہ اور جرمنی میں پلی بڑھی رِنک اور اس کتاب کے شریک مدیر سائمن یوسفو، جو فرانسیسی والدہ اور نائیجرین والد کے بیٹے ہیں، نے بھی 'پیپل آف ڈوئچ لینڈ‘ کے لیے مضامین لکھے ہیں۔ 45 ذاتی کہانیوں پر مشتمل اس کتاب کے لیے برلن میں مقیم فوٹوگرافر سیمی ہارٹ نے تصاویر بنائیں، جو اپنی بنائی گئی بہت حساس پورٹریٹ تصویروں کے لیے مشہور ہیں۔

لاشعوری تعصب اور جسمانی تشدد

یوسفو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں مخفی نسل پرستی یا ایسی چھوٹی جارحیت پر مبنی کہانیاں شامل ہیں، جو 'غیر شعوری تعصب، تعصبات اور دقیانوسی تصوارت‘ سے متعلق ہیں۔ اس کتاب میں منظرنامے کے دوسرے سرے کا بھی احاطہ کیا گیا ہے، یعنی نفسیاتی اور جسمانی تشدد۔ درحقیقت اس کتاب میں ہر چیز کی نمائندگی کی گئی ہے۔‘‘


یوسفو نے کہا کہ اس کتاب کا مقصد نسل پرست لوگوں کے خلاف عسکریت پسندانہ کارروائی کرنا نہیں بلکہ قارئین کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ ہر ایک کے تعصبات ہوتے ہیں کیونکہ ہم اسی سماج میں رہتے ہیں اور یہ کہ آپ نسل پرستی کے نمونوں کو پہچان بھی سکتے ہیں اور انہیں تبدیل کرنے میں فعال کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔

’’ایک طرح سے یہ جسم کے پٹھوں کی طرح ہے، جن کی آپ کو ورزش کرنا پڑتی ہے۔ اگر آپ لوگوں سے رابطے کرتے ہیں اور ان کہانیوں کی وجہ سے حساسیت پیدا کرتے ہیں، تو آپ اس پر کام کرسکتے ہیں۔‘‘


اکثریت روزمرہ کی نسل پرستی کے نقصان دہ اثرات سے نابلد

یوسفو کا کہنا ہے، ''نظریاتی نسل پرستی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک ایسا اکثریتی معاشرہ ہے جسے نسل پرستی کا شکار ہونے کا معمولی سا بھی تجربہ نہیں۔ اسی لیے اسے اس بات کا مکمل اندازہ ہی نہیں کہ روزمرہ زندگی میں ایسے واقعات کتنے پرتشدد اور تکلیف دہ ہوسکتے ہیں۔‘‘

اس کتاب میں موسیقی، کھیل کود، آرٹ اور فیشن کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیات سمیت مختلف اور متنوع پس منظر کے حامل افراد کی کہانیاں شامل ہیں اور کتاب کے مدیران کو امید ہے کہ اس میں جن امور پر اور جتنی توجہ مرکوز کی گئی ہے، وہ صرف مباحثوں تک ہی محدود نہیں رہے گی۔


یوسفو اور رِنک نے اس کتاب سے ہونے والی آمدنی کو تعلیم کے لیے دوزین تیکال کی شروع کردہ مہم 'جرمن ڈریم‘ کو عطیہ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ یہ تنظیم 'جمہوریت، روا داری اور تکثیریت کو مستقبل میں لے جانے‘ کے لیے کوشاں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ نسلی پرستی مجموعی طور پر معاشرے کے لیے ایک مسئلہ ہے اور جرمنی میں تمام لوگوں کو اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ''روزمرہ زندگی میں ہم میں سے ہر کوئی ہر طرح کے واقعات کا سامنا کرنے کا اہل نہیں ہوتا، چاہے ایسا منفی ارادے سے، لاشعوری طور پر، اضطراری سطح پر اور نسل پرستانہ انداز میں بات چیت کے ذریعے نہ بھی کیا گیا ہو۔‘‘


ان دونوں مدیران کا کہنا ہے، ''صرف یہی کافی نہیں کہ ہم خود کو نسل پرست نہ سمجھیں۔ ہم سب کو فعال انداز میں نسل پرستی کا مقابلہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔‘‘

(یہ مضمون اصلاً جرمن زبان میں تحریرکیا گیا۔ اس کے لیے سائمن یوسفو کا انٹرویو یان ڈیوراں نے کیا۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */