’مرد کو درد نہیں ہوتا‘

ایک دن میرا دس سالہ خالہ زاد اپنے بھائی کے رونے کی عادت پر اس کا یہ کہہ کر مذاق اڑا رہا تھا کہ ’’تم کیا عورتوں کی طرح روتے رہتے ہو ہر وقت؟ مرد بنو مرد‘‘۔

’مرد کو درد نہیں ہوتا‘
’مرد کو درد نہیں ہوتا‘
user

Dw

میں نے یہ بات سنی تو اس کو سمجھایا کہ رونا نہ تو کمزوری ہے، ناں ہی مردانگی پہ کوئی دھبہ اور کیا مرد عورت کی طرح انسان نہیں ہے کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا؟ اس نے جواباً کہا، ’’آپی! اگر یہ ایسے روئے گا تو سب لڑکے اس کا مذاق بنائیں گے۔‘‘

میں نے اسے تو یہ بات سمجھا دی کہ رونا کوئی بری بات نہیں مگر پھر اس بارے میں سوچتی رہی کہ ہم اپنے بچوں کی پرورش کن اصولوں پر کرتے ہیں اور جانے انجانے میں ان کی شخصیت پر کیسے اثرات چھوڑ جاتے ہیں؟


مرد اور عورت کی اس تفریق کے ذمہ دار تو دراصل ہم خود ہیں، جو کم عمری ہی سے مرد اور عورت کے لیے الگ الگ سانچے مقرر کر دیتے ہیں اور سب کو انہی کے مطابق ڈھالنے کی تگ و دو میں بھی لگ جاتے ہیں۔ اگر جو دونوں میں سے کوئی بھی ذرا سا اس سانچے سے ہٹا تو وہ ہمارے لیے نا قابل قبول ہو گیا۔

میں نے اپنی پچیس سالہ زندگی میں اپنے گھر کے مردوں کو ایک دو مرتبہ کے علاوہ کبھی روتے نہیں دیکھا، جن میں سے ایک مرتبہ میں نے اپنے چچا کی نا گہانی موت پر اپنے والد کی آنکھوں میں پہلی مرتبہ آنسو دیکھے۔ بعض اوقات وہ اپنی والدہ یعنی ہماری دادی کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے لیکن میں نے اپنی زندگی میں زیادہ تر مردوں کو انتہائی نامناسب حالات میں بھی کبھی زار و قطار روتے یا بلکتے نہیں دیکھا۔


مرد کو ہم اسی طرح کا سخت جان مرد دیکھنے کے قائل ہیں، جو اپنے جذبات کو حتیٰ الامکان دبانے کی کوشش کرے۔ اگر نہ دبا سکے تو بے وجہ غصے کے ذریعے اظہار کرے مگر کبھی روئے نہیں ورنہ اس کو نا مرد سمجھا جائے گا۔ یہ معاشرہ، جہاں عورت کے ساتھ ظالمانہ سلوک کرتا ہے اور اسے کمزور دیکھنے کی خواہش رکھتا ہے، وہیں مرد کو خواہ مخواہ رعب دار دکھانے والا اور دھونس جمانے والا ہی دیکھنا چاہتا ہے اور اگر کوئی مرد غلطی سے ان معیارات پر پورا نہ اُترے تو اسے عورت اور ہیجڑہ جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں مرد اس لیے بھی بلا وجہ غصے کے عادی ہوتے ہیں کیونکہ ان کو اپنے دیگر جذبات کے اظہار کی آزادی نہیں ہوتی۔ زیادہ خوشی اور اداسی دونوں ہی کا اظہار بچگانہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں ان کے اندر جذبات کا ایک فطری توازن برقرار نہیں رہ پاتا اور وہ بہت سے نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔


پدر شاہی نظام، جہاں عورت کے لیے استحصال کا باعث ہے، وہیں مرد اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا اظہار ہی نہیں کر پاتے، چاہے وہ بچپن میں لڑکوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی ہو یا بڑی عمر میں ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافی۔ لڑکے اپنے ساتھ ہونے والی جسمانی زیادتی کے بارے میں گھر والوں کو اس لیے نہیں بتا پاتے کہ ان کو کمزور نہ سمجھا جائے اور پھر یہ مسائل بڑے ہو کر بیشتر نفسیاتی مسائل کو جنم دیتے ہیں۔

مردوں میں بڑھتے ہوئے ذہنی مسائل اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے جذبات کے اظہار کا کوئی آؤٹ لیٹ نہیں ہے۔ خواتین رو کر اپنے دکھ کا اظہار کر لیتی ہیں مگر مردوں میں یہ بچپن سے ہی دبائے ہوئے جذبات بہت سے ذہنی مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔


عمومی طور پر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں شروع ہی سے بچے کی پرورش "جینڈر رولز" کے مطابق کی جاتی ہے، جس میں مردانگی اور زنانگی کے کچھ معاشرتی اصول مقرر کر دیے گئے ہیں۔ حالانکہ بحیثیت مرد یا عورت ہمارا فطری طور پر اتنا فرق نہیں ہے بلکہ معاشرتی طور پر ہمیں سو شلائز ہی ایسے کیا جاتا ہے کہ ہم کچھ رویوں کو زنانگی جبکہ کچھ اور رویوں کو مردانگی کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں جو بعد میں خود ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔

جیسے کہ بچے کے پیدا ہونے کے بعد ہی لڑکا اور لڑکی کا فرق واضح کرنے کے لیے لڑکے کو گہرے رنگوں جیسے نیلے اور کالے رنگ کے کپڑے پہنائے جاتے ہیں جبکہ لڑکی کو شوخ رنگ کے جیسے گلابی یا سرخ وغیرہ۔ بچے جوں جوں بڑے ہوتے ہیں تو ان کے رویوں میں بھی واضح فرق دیکھنے میں آتا ہے۔


لڑکوں کو زیادہ تر باہر کھیل کود اور جسمانی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جاتا ہے جبکہ لڑکیوں کو گھر داری اور امور خانہ داری میں دلچسپی لینے کے لیے کہا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو عام طور پر نازک مزاج اور جذباتی سمجھا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ان کو صنف نازک کے سانچے میں ڈھالا جائے جبکہ لڑکوں کو سخت جان اور مضبوط بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ روایتی طور پر ہمارے گھروں میں مائیں، بہنیں، خالہ اور پھو پھیاں وغیرہ لڑکے کو "شیر پتر"جیسے ناموں سے پکارتی ہیں تاکہ وہ بہادر اور مضبوط بنیں اور اگر بچہ روئے تو یہ کہہ کر چپ کرایا جاتا ہے کہ "بیٹا! مرد روتے نہیں ہیں!" یوں یہ لڑکے بچپن سے ہی رف اینڈ ٹف بن جاتے ہیں اور اپنے مسئلے زیادہ تر خود تک محدود رکھتے ہیں اور ان کا حل نکالنے کی بجائے ان کو دبانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان کے جذبات اندر ہی اندر جمع ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کو کتنی دیر تک دبایا جا سکتا ہے، آخر یہ جذبات منفی رویوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، جن میں بے جا غصہ، تشدد، جارحیت اور نشے کی عادت عام ہے۔

ان متشدد رویوں کا نقصان نہ صرف گھر کی عورتوں کو پہنچتا ہے بلکہ خود مردوں کی ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ مردوں میں یہ رویے نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی بیماریوں کا بھی سبب بنتے ہیں۔
مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر گبور ماتے نے اپنی کتاب 'When the Body Says No' میں ان بیماریوں کی نفسیاتی اور معاشرتی وجوہات پر بہت تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کے مطابق ہمارا جسم ہمارے ساتھ ہونے والی معاشرتی ناانصافیوں اور منفی رویوں کو رجسٹر کرتا ہے اور پھر ان کا اثر ہمارے ذہن کے ساتھ ساتھ جسم میں بھی نظر آنے لگتا ہے۔ اس لیے جذبات کا اظہار نہ ہونے کے باعث ہم بہت سی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں ڈپریشن، اینزائٹی جیسے نفسیاتی مسائل کے ساتھ آٹو ایمیون بیماریوں کا رحجان بہت زیادہ ہے۔


مرد اپنے ذہنی مسائل پر بھی بات کرنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں انہیں کمزور نہ سمجھ لیا جائے اور اسی وجہ سے ان کے ذہنی مسائل خواتین کے مقابلے میں کم رپورٹ ہوتے ہیں۔ وہ جسمانی بیماریوں کے لیے بھی ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے سیلف میڈیکیشن کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ زندگی میں ان کو جس بھی طرح کے گھریلو، معاشی یا معاشرتی مسائل کا سا منا ہو، وہ دوسروں سے مدد لینے کو عیب سمجھتے ہیں اور یوں اپنے اندر ہی اندر ان سے لڑتے رہتے ہیں۔

"یہ جینڈر رولز" مرد اور عورت دونوں کے لیے کچھ خاص فائدہ مند نہیں۔ آج کل کے ترقی یافتہ دور میں جہاں عورت اور مرد دونوں ہی کماتے ہیں اور مل جل کر گھر کے اندر اور باہر کی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں، وہاں ہم جیسے پسماندہ معاشروں کی سوچ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مالی اخراجات کی تمام ذمہ داری صرف مرد پر نہ ہو اور اگر وہ انہیں پورا نہ کر پائے تو اسے کم تر سمجھا جائے اور اس کی مردانگی پر سوال اٹھایا جائے۔ اسی طرح اگر وہ گھر میں بیوی کے ساتھ بچوں کی پرورش میں اور گھر کے دیگر کاموں میں مدد کرے تو اسے نا مرد یا زن مرید کہنے کی بجائے اس بات پر خوشی منائی جانی چاہیے۔


نائجیریا کی مشہور مصنفہ چیمامندہ نگوذی آدیچے کہتی ہیں، ’’جینڈر رولز یا صنفی کرداروں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ہمیں ہماری ذات کی پہچان کرنے میں مدد دینے کی بجائے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ معاشرے کے مطابق ہمیں کیسا ہونا چاہیے۔‘‘ اس لیے ضروت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو معاشرے کے مطابق ڈھالنے کی بجائے ان کی اپنی شخصیت کو پروان چڑھائیں تاکہ وہ مرد یا عورت بننے کی بجائے ایک بہتر انسان بن کر معاشرے میں اپنا کردار ادا کریں۔

یہ جینڈر رولز چونکہ معاشرے کے تخلیق کردہ ہیں لہذا انسانی معاشرے کی ارتقاء کے ساتھ ساتھ ان میں بھی واضح فرق آیا ہے۔ پہلے پہل شوخ اور گلابی رنگوں کا استعمال مرد کے لیے کیا جاتا تھا، پھر بعد ازاں اسے صرف خواتین تک محدود کر دیا گیا۔


اس طرح مرد اور عورت کے معاشرتی رویوں میں بھی بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق زیادہ تر جینڈر رولز معاشرے کی ضرورت کے مطابق بنائے جاتے تھے جیسے کہ ایشیائی اور یورپین معاشروں کے برعکس کئی افریقی قبائل میں حکمران اور رہنما عورتیں ہوا کرتی تھیں اور تمام ضروری اور اہم امور ان کو سونپے جاتے تھے۔

میں معاشرے کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ مرد کو ظالم اور سفاک بنانے میں بہت زیادہ کردار سوشلائزیشن کا ہے اور جب تک ہمارے معاشرے سے پدرسری رویوں کا خاتمہ نہیں ہو گا، ان مسائل کا تدارک نا ممکن ہے۔ جذبات اور ان کا اظہار انسانی وجود کے لیے ضروری ہے اور ان سے انکار بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔

(نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔